• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

امریکا: امیگریشن احکامات پر گوگل اور فیس بک کو تشویش

شائع January 28, 2017
فیس بک کے بانی مارک زکر برگ—۔فائل فوٹو/ اے پی
فیس بک کے بانی مارک زکر برگ—۔فائل فوٹو/ اے پی

نیو یارک: انٹرنیٹ ٹیکنالوجی اور سوشل ویب سائٹس میں منفرد مقام رکھنے والی 2 امریکی کمپنیوں گوگل اور فیس بک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امیگریشن احکامات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تارکین وطن پر پابندی سے امریکا نئے ٹیلنٹ سے محروم ہوجائے گا۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایگریکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے تارکین وطن کے پروگرام کو 4 ماہ کے لیے معطل کرکے 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر بھی پابندی عائد کردی۔

ایگزیکٹو آرڈر کے تحت امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو 120 دن (یعنی 4 ماہ) کے لیے معطل کردیا گیا،جب کہ ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں کو 90 دن (یعنی 3 ماہ) تک امریکا کے ویزے جاری نہیں کیے جائیں گے۔

اس فیصلے کے بعد سوشل ویب سائٹ فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے امگریشن قوانین اور تارکین وطن پر پابندیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فیس بک پر پوسٹ شیئر کی۔

مارک زکربرگ نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا، 'ہمیں اس ملک کو محفوظ رکھنا ہے، لیکن اس سلسلے میں ہمیں ان لوگوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو اصل میں امریکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان لوگوں پر توجہ دینی چاہیے جو لوگوں کے لیے خطرہ ہیں اور امریکا کو غیر محفوظ بنا رہے ہیں، جبکہ یہاں ایسے بھی سیکڑوں لوگ غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، جو امریکا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے لیکن انھیں ڈی پورٹ ہونے کا خدشہ ہے'۔

زکربرگ کا مزید کہنا تھا کہ 'میرے آباؤ اجداد جرمنی، آسٹریا اور پولینڈ سے آئے جبکہ میری اہلیہ کا خاندان چین اور ویت نام سے بحیثیت پناہ گزین امریکا آیا'، انھوں نے کہا کہ 'ہمیں پناہ گزینوں کے لیے اور ان لوگوں کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں، جن کو مدد کی ضرورت ہے'۔

مزید پڑھیں:7 مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی

ساتھ ہی انھوں نے لکھا کہ 'چند سال قبل میں ایک مقامی مڈل اسکول میں پڑھایا کرتا تھا، جہاں میری کلاس کے بہترین طالب علم وہ تھے، جو یہاں غیر قانونی طور پر مقیم ہے، وہ بھی ہمارا مستقبل ہیں'۔

مارک زکربرگ نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امیگریشن کے حوالے سے ایگزیکٹو آرڈر نے انھیں ذاتی حیثیت میں متاثر کیا، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ حکم نامہ فیس بک کے کاروبار پر بھی اثر انداز ہوگا۔

گوگل کے تحفظات

گوگل نے بیرون ملک سفر پر اپنے ملازمین کو واپس بلالیا—فوٹو: رائٹرز
گوگل نے بیرون ملک سفر پر اپنے ملازمین کو واپس بلالیا—فوٹو: رائٹرز

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایگزیکٹو آرڈر جاری کیے جانے کے بعد انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی کمپنی گوگل نے بیرون ملک گئے اپنے عملے کے 100 ارکان کو فوری طور پر واپس بلا لیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے’بی بی سی‘کے مطابق گوگل نےامریکی صدرکے ایگزیکٹو آرڈر پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس پابندی سے امریکا ذہین تارکین وطن سے محروم ہوجائے گا۔

برطانوی ادارے کے مطابق مائکروسافٹ نے بھی اس پابندی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اسٹیک ہولڈرزکو خبردار کیا ہے کہ اس فیصلے سے ان کا کاروبار متاثر ہوسکتا ہے۔

اگرچہ گوگل اور فیس بک نے اس بات کا خاص طور پر ذکر نہیں کیا، تاہم ان کمپنیوں سمیت ٹیکنالوجی کے حوالے سے کام کرنے والی دیگر کمپنیاں H-1B ویزوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں، جن کے ذریعے پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے افراد امریکا آکر کام کرسکتے ہیں، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل اس پروگرام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکیوں کو ہی ملازمتیں دی جائیں۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ تارکین وطن پر پابندی کے فیصلے سے سب سے زیادہ ٹیکنالوجیز کمپنیاں متاثر ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں:چند مسلم ممالک کے لوگوں کا داخلہ محدود کرنا ضرروی: ٹرمپ

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرکے امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو معطل کرتے ہوئے 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔

اس سے قبل بھی انھوں نے دو حکم ناموں پر دستخط کیے تھے جن میں سے ایک امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر اور دوسرا غیر قانونی مہاجرین کی ملک بدری سے متعلق تھا۔

امریکی چینل کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا، 'امریکا میں داخلہ بہت مشکل کردیا جائے گا، اس وقت امریکا میں داخل ہونا بہت آسان ہے تاہم اسے اتنا آسان نہیں رہنے دیا جائے گا'۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024