افغانستان میں روسی مداخلت: امریکا پاکستان کو کیسے دیکھتا تھا؟
یہ رپورٹ اس خفیہ دستاویز سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی ہے جسے حال ہی میں امریکی خفیہ ایجنسی (سی آئی اے) نے اپنی ویب سائٹ ’ریڈنگ روم‘ پر جاری کیا۔ اس سے قبل یہ دستاویز صرف میری لینڈ کے کالج پارک کی نیشنل آرکائیو پر عوام کو دستیاب تھے۔
جولائی 1982 میں سی آئی اے کی جانب سے جاری کی جانے والی انٹیلی جنس جائزہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سوویت یونین کے قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والے افغان شہریوں کی پاکستان کی جانب سے کی جانے والی حمایت کے پیچھے چند اہم عناصر کار فرما تھے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
یہ خیال کہ اگر سوویت یونین نے افغانستان پر کنٹرول قائم کرلیا تو وہ پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے بلوچستان پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرسکتا ہے۔
دوسرا یہ کہ اگر پاکستان افغان باغیوں کی حمایت جاری رکھتا ہے تو اسے ’امریکا، چین، سعودی عرب اور مغربی یورپ سے مزید عسکری و مالی معاونت‘ کے حصول کا جواز مل سکتا ہے۔
تیسرا یہ خوف کہ پاکستان کو تقسیم کرنے کے لیے ماسکو اور نئی دہلی کے درمیان گٹھ جوڑ ہوسکتا ہے۔
پاکستان پر سوویت دباؤ
جائزہ رپورٹ کے مطابق سوویت یونین سرحد پر فوجی دباؤ میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سرگرم مخالف گروپس کے ساتھ تعاون بڑھا کر اسلام آباد کو جواب دے سکتا تھا۔
رپورٹ میں آگے چل کر اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کیوں بعض پاکستانی عہدے دار کابل اور ماسکو کے حوالے سے پاکستان کے رویے میں نرمی کی حمایت کررہے تھے۔
دستاویز میں اس کی وجوہات بیان کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ سوویت یونین کی مسلسل مخالفت سے ’پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی تھی‘ کیوں کہ پاکستان ’سوویت جیسے بڑے ملک کی چڑھائی‘ کا کامیابی سے دفاع نہیں کرسکتا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کی سلامتی کے لیے بھارت بدستور خطرہ تھا اور افغانستان کی سرحد پر مستقل تناؤ نے اسلام آباد کے پاس ماسکو اور نئی دہلی کی جانب سے دباؤ کو مربوط کرنے کے علاوہ کوئی راہ نہیں چھوڑی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہریوں اور افغان مہاجرین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی جبکہ مقامی وسائل پر پڑنے والے اضافی بوجھ کی وجہ سے بعض پاکستانی عہدے دار شاید ماسکو کے حوالے سے زیادہ لچکدار حکمت عملی اپنانے پر یقین رکھتے تھے۔
مزید برآں اگر امریکا اور یورپی برادری سوویت یونین کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کا آپشن اپنا لیتے تو اس سے غیر ملکی امداد میں کمی کا خدشہ تھا۔
امریکی فوجی امداد کی اہمیت
جاری کیے جانے والے حساس دستاویز میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان اپنی افغان پالیسی پر قائم رہنے کے لیے امریکی فوجی امداد کو انتہائی ضروری سمجھتا تھا کیوں کہ جدید ہتھیاروں کا حصول سوویت یونین اور بھارت کی جانب سے درپیش دباؤ سے باہر نکلنے میں اہم کردار ادا کرسکتا تھا۔
جدید ہتھیاروں کی فروخت وہ پیمانہ تھا جس کے ذریعے پاکستان اپنی سلامتی اور سیاسی مفادات کی امریکی حمایت کا اندازہ لگاتا تھا۔
جائزہ رپورٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ پاکستان کی نظر میں خطے کے حوالے سے کیے جانے والے امریکی وعدوں پر شکوک پیدا کرسکتی تھی جس سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔
اگر امریکا پاکستان کے لیے مسلسل عسکری تعاون و امداد کو یقینی نہیں بناتا تو اس سے ان لوگوں کی باتوں کو تقویت مل سکتی تھی جو یہ کہتے تھے کہ پاکستان کو ماسکو اور کابل کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اگر ایسا ہوتا تو پاکستان میں موجود افغان باغیوں کی سلامتی اور پروپیگنڈا پلیٹ فارم پر برا اثر پڑسکتا تھا۔
تاہم رپورٹ میں اس بات کا تذکرہ نہیں کیا گیا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کرسکتی تھی اور’ 1980 کی دہائی کے نصف تک امریکی ہتھیاروں کی فراہمی سے پاکستان کا دفاع مضبوط ہوچکا تھا‘۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے لیے مسلسل امریکی فوجی امداد کی وجہ سے سوویت یونین کی جانب سے پاکستان میں ضیاء حکومت کی مخالفت بھی بڑھ سکتی تھی۔
سوویت کے حوالے سے پاکستان کے خدشات
انٹیلی جنس جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان یہ سمجھتا تھا کہ سوویت یونین کا افغانستان میں داخل ہونا خلیج فارس اور بحرِ ہند تک رسائی حاصل کرنے کے طویل المدتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کو یہ بھی خدشہ تھا کہ سوویت یونین کی کامیابی کے بعد پاکستان پر بڑا حملہ ہوسکتا ہے تاکہ بلوچستان پر قبضہ کیا جاسکے اور پاکستان کو چین سے ملانے والی شاہراہ قراقرم کو منقطع کرکے بھارتی فورسز سے منسلک ہوا جاسکے۔
جائزہ رپوٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کو یہ خدشہ تھا کہ سوویت یونین اور بھارت پاکستان کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرکے پشتونستان، بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں’ماتحت ریاستیں‘ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
باغیوں کیلئے پاکستان کی حمایت
دستاویز کے مطابق باغیوں کے لیے پاکستان کی حمایت امریکی مفادات اور سوویت یونین کو افغانستان پر قابض ہونے سے روکنے کے لیے انتہائی ضروری تھی کیوں کہ پاکستان ’باغیوں کا محفوظ ٹھکانہ اور سپلائی بیس تھا جبکہ اسلام آباد نے انہیں تربیتی کیمپس قائم کرنے اور سرحد پر غیر ملکی اسلحہ حاصل کرنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی‘۔
جائزہ رپورٹ کے مطابق افغان مزاحمت کاروں کی کامیابی کی سب سے اہم وجہ سرحد پر باغیوں اور ہتھیاروں کی نقل و حرکت تھی۔
انٹیلی جنس جائزہ رپورٹ کے مطابق سوویت یونین کا یہ خیال تھا کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستانی کی پالیسیاں ’محض صدر ضیاء کی ذات سے منسلک ہیں‘۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سوویت کے بلوچ اور پشتون علیحدگی پسند تنظیموں سے دیرینہ تعلقات تھے جبکہ وہ پاکستان کی پالیسیوں کو اپنے حق میں کرنے کے لیے ان کا استعمال کرسکتے تھے۔
تاہم امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی یہ نہیں سمجھتی کہ یہ علیحدگی پسند تنظیمیں اتنی طاقتور تھیں کہ ان سے پاکستان میں ضیاء حکومت کو کوئی خطرہ ہوسکتا اور سوویت یونین کی جانب سے ضیاء حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوئی بھی کوشش پاکستان اور امریکا کو مزید قریب لاسکتی تھی۔
بطور اتحادی امریکا پر اعتماد
رپورٹ میں بارہا اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان بطور اتحادی امریکا کو قابل اعتماد نہیں سمجھتا تھا اور اسے خدشہ تھا کہ اگر افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ طویل ہوا تو ممکن ہے کہ امریکا باغیوں کی حمایت سے دستبردار ہوجائے اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان ’سپر پاور کی حمایت سے محروم ہوکر تنہا رہ جائے گا‘۔
رپورٹ کے مطابق ان ہی خدشات کی وجہ سے پاکستان کافی حد تک امریکا کو محض اسلحہ کا ایک سپلائر سمجھتا تھا اور ایسا خاص طور پر اس تناظر میں بھی تھا کہ 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں امریکا نے ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی عائد کردی تھی، ساتھ ہی کئی پاکستانی حکام کو شک تھا کہ پاکستان کے لیے امریکا کی حمایت سوویت یونین کی مخالفت کے لیے عارضی مصلحت ہے جبکہ امریکا اور روس کے درمیان تناؤ میں کمی کا نتیجہ پاکستان کی تنہائی کی صورت میں نکلے گا۔
دستاویز میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ ’چین کی بھرپور حمایت کے باوجود‘ پاکستان کے دفاع کے حوالے سے بیجنگ کی جانب سے کوئی ٹھوس وعدہ نہیں کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سوویت یونین کی مسلسل موجودگی کی وجہ سے درپیش خطرات، براہ راست کارروائی کا خطرہ اور یہاں تک کہ ان تجاویز کی موجودگی کہ کابل ’ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرسکتا ہے‘، ان سب کے باوجود پاکستان نے متبادل پالیسیوں کو زیر غور رکھتے ہوئے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی حمایت خاص طور پر فوجی امداد حاصل کی جاسکے۔
انٹیلی جنس جائزہ رپورٹ میں امریکی پالیسی کے لیے مضمرات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ سوویت یونین اور افغان حکومت کے ساتھ مفاہمت کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں آنے والی کوئی بھی تبدیلی جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کے لیے شدید دھچکا ہوتی کیوں کہ اس کی وجہ سے کابل میں سوویت یونین کی حمایت یافتہ حکومت کو قانونی حیثیت حاصل ہوسکتی تھی۔
جائزہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کے لیے امریکی حمایت اور فوجی امداد میں اضافے سے بھارت اور امریکا کے تعلقات مزید خراب ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان بھی کشیدگی بڑھے گی۔
اوپر جس دستاویز کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ 17 جنوری 2017 کو سی آئی اے کی جانب سے جاری کی جانے والی 9 لاکھ 30 ہزار فائلز کا حصہ ہے جو پہلے خفیہ تھیں۔ سی آئی اے نے 1999 سے تاریخی ڈی کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹس کو اپنے سی آئی اے ریکارڈز سرچ ٹول (کریسٹ) پر عام کرنا شروع کیا تھا۔
تبصرے (2) بند ہیں