وزیراعظم کی تقریرکو 'اعتراف' قرار دینے پر عدالت کا اعتراض
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے جماعت اسلامی کے وکیل کی جانب سے وزیراعظم کی تقریر کو ان کا 'اعتراف' قرار دینے کے دلائل پر سوال اٹھا دیا۔
عدالت عظمیٰ نے وکیل جماعت اسلامی توفیق آصف کو مخاطب کرکے کہا، 'کہ آپ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کی تقریر میں تضاد نہیں، اعتراف ہے لیکن اگر وزیراعظم ملکیت تسلیم کرچکے ہوتے تو اتنے دن سماعت ہی نہیں ہوتی'۔
جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ کے سامنے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کی تقریر کو بطور شہادت استعمال کیا جاسکتا ہے۔
نواز شریف کی فیکٹریوں اور جائیدادوں پر دلائل دیتے ہوئے توفیق آصف کا کہنا تھا کہ اتفاق فاؤنڈری 1980 میں خسارے میں تھی اور وزیراعظم کے بیان کے مطابق اتفاق فاؤنڈری تین سال میں خسارہ ختم کرکے 60 کروڑ منافع میں چلی گئی جس کے بعد 1985 میں اتفاق فاؤنڈری کا دائرہ بڑھتے بڑھتے کئی کمپنیوں تک پہنچ گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے یہ نہیں بتایا کہ کاروبار کی رقم کہاں سے آئی جبکہ تقریر میں کہا گیا تھا کہ فلیٹ 1993 سے 1996 میں خریدے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس پر ن لیگ کی کمیشن بنانے کی تجویز
جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کہ وزیراعظم نے اس بات کا اعتراف کہاں کیا ہے؟ اگر وہ یہ بات مان چکے ہوتے تو ہم اتنے دنوں سے یہ کیس کیوں سن رہے ہیں؟
توفیق آصف نے عدالت کو جواب دیا کہ نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ وہ دبئی فیکٹری کے قیام کے وقت سیاست کا حصہ نہیں تھے۔
جس پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آپ کہتے ہیں وزیراعظم نے اعتراف کیا ہے، ہم اسی اعتراف کو ڈھونڈ رہے ہیں، آپ تقریر کا وہ حصہ وہ دکھائیں جس میں اعتراف کیا گیا ہے۔
جسٹس عظمت نے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل کا حوالہ دیتے ہوئے کہ نعیم بخاری کا موقف تھا کہ وزیراعظم کی تقاریر میں تضاد ہے۔
جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہاں 2 سوالات اتھتے ہیں، پہلا سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کب خریدے گئے؟ اور دوسرا یہ کہ ان فلیٹس کا وزیراعظم سے کیا تعلق ہے؟
جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ فلیٹس کی خریداری کی حد تک اعتراف موجود ہے مگر یہ تسلیم نہیں کیا گیا کہ جائیداد نواز شریف نے خریدی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے لندن فلیٹس کے خریدنے کا ذکر والد کے حوالے سے کیا گیا تھا۔
توفیق آصف کا وضاحت دیتے ہوئے کہنا تھا کہ فلیٹس کا تذکرہ ظفر علی شاہ کیس میں موجود ہے۔
جس پر جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ کیا ظفر علی شاہ کیس میں نواز شریف فریق تھے؟
مزید پڑھیں: پاناماکیس:’دہری شہریت اورصادق، امین کی بنیاد پرنااہلی میں فرق‘
وکیل جماعت اسلامی توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف ظفر علی شاہ کیس میں فریق اول تھے اور ایڈوکیٹ خالد انور نے اس وقت نواز شریف کی کیس میں نمائندگی کی تھی۔
اس موقع پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ ظفر علی شاہ کیس میں نواز شریف فریق نہیں تھے، جس کے بعد توفیق آصف نے دلائل کے دوران ظفر علی شاہ کیس سے متعلق دیئے گئے دلائل واپس لے لیے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ کے سامنے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے۔
’وزیراعظم نے حلف کی پاسداری نہیں کی‘
دلائل کا دوبارہ آغاز کرتے توفیق آصف نے جماعت اسلامی کی جانب سے گذشتہ روز دائر کی جانے والی درخواست کا مؤقف دہرایا اور کہا کہ نواز شریف نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی اور گوشواروں میں لندن اثاثوں کا ذکر نہیں کیا جس کے بعد وہ صادق اور امین نہیں رہے لہذا انھیں نااہل قرار دیا جائے۔
جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کا الزام یہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے جان بوجھ کر لندن کے اثاثے چھپائے؟
توفیق آصف کا کہنا تھا کہ عدالت کو ڈیکلئریشن دینے کا اختیار حاصل ہے اور کیا نواز شریف کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر قانونِ شہادت کے زمرے میں نہیں آتی؟
جسٹس آصف کھوسہ نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو 183/3 کے مقدمے میں ڈیکلیئریشن دینے کا اختیار ہے؟
جس پر توفیق آصف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ 184/3 کے تحت ڈیکلیئریشن دے سکتی ہے۔
انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ نواز شریف نے لندن فلیٹس کی ملکیت سے انکار نہیں کیا مگر انہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے اور بطور ایم این اے و وزیراعظم جو حلف اٹھائے ان کی پاسداری نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں: شادی کے بعد والد کی زیرکفالت نہیں: مریم نواز
جس پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ حلف کی پاسداری نہیں کی اس لیے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جائے؟
توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ نعیم بخاری نے وزیراعظم کی تقریر میں تضاد پر دلائل دیئے تھے جبکہ وزیراعظم کی تقریر اعتراف جرم ہے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے پی ٹی آئی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دوسری پارٹی کا الزام ہے کہ لندن فلیٹس کی ملکیت نواز شریف کی ہے اور ان کی جانب سے التوفیق کیس کا حوالہ دیا گیا ہے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے جماعت اسلامی کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ عدالت کو نواز شریف کے بیانات میں تضاد سے آگاہ کریں۔
توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ وہ دائرہ اختیار کے حوالے سے دلائل دیں گے اور منی ٹریل اور ثبوت فراہم کرنا شریف فیملی کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ لندن فلیٹس سے متعلق ظفر علی شاہ کیس میں کوئی فائنڈنگ نہیں دی گی تھی اور صرف اس وقت کے اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے تھے۔
جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں ان دلائل کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی اور آپ جو حوالہ دے رہے ہیں وہ وکلاء کے دلائل تھے جبکہ پراپرٹی کی ملکیت بھی اس کیس میں بھی ثابت نہیں ہوسکی تھی۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے توفیق آصف کے دلائل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو دلائل دے رہے ہیں وہ ایسے ہیں کہ نعیم بخاری پی ٹی سی ایل کیس میں دلائل دیں اور کہیں کہ جو دلائل پاناما کیس میں دیئے تھے انہیں اس کیس میں بھی شامل کر دیا جائے۔
جماعت اسلامی کے وکیل کو عدالت کی تنبیہ
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف نے آرٹیکل 66 کے تحت استثنیٰ نہیں استحقاق مانگا ہے، ساتھ ہی عدالت نے جماعت اسلامی کے وکیل کو تنبیہ کی کہ کیس کو اتنی غیر سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیئے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے توفیق آصف کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں غلط بیانی کی ہے اب بتائیں کہ آپ پر آرٹیکل 62 لگائیں یا 63؟ جس پر عدالت میں قہقہوں کی آوازیں بلند ہوگئیں۔
توفیق آصف نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اتنی بھی غیر سنجیدہ بات نہیں کی، میرا زیادہ انحصار وزیراعظم کی تقریر پر ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 248 کے تحت استثنی اور 66 کے تحت استحقاق دو الگ چیزیں ہیں اور وزیراعظم نے استثنی نہیں مانگا۔
جس پر توفیق آصف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر اسمبلی میں معمول کی کارروائی نہیں تھی اور نہ ہی وہ کوئی پالیسی بیان تھا جو استحقاق کا مطالبہ کیا جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کیا وزیراعظم کی تقریر ایجنڈے کا حصہ تھی؟ اور کیا ذاتی الزامات کا جواب دینے کے لیے اسمبلی کا فلور استعمال ہوسکتا ہے۔
ان دلائل کے ساتھ ہی کیس کی سماعت کو پیر (23 جنوری) تک کے لیے ملتوی کردیا گیا، جہاں جماعت اسلامی کے وکیل وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق دائر کی گئی درخواست پر اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز سماعت میں جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے تھے کہ ہمارے سامنے معاملہ الیکشن کا نہیں بلکہ نواز شریف کی بطور وزیراعظم اہلیت کا ہے۔
جسٹس عظمت سعید شیخ کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم کے عہدے کو چیلنج کیا گیا ہے اور دوسرے فریق کا کہنا ہے نواز شریف اب رکن قومی اسمبلی نہیں رہے۔
مزید پڑھیں: پاناما کیس: 'معاملہ وزیراعظم کی اہلیت کا ہے'
یہ بھی یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جبکہ نئے چیف جسٹس ثاقب نثار 5 رکنی لارجر بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔
لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔
تبصرے (1) بند ہیں