• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

پاناما کیس: 'معاملہ وزیراعظم کی اہلیت کا ہے'

شائع January 19, 2017

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے معاملہ الیکشن کا نہیں بلکہ نواز شریف کی بطور وزیراعظم اہلیت کا ہے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم کے عہدے کو چیلنج کیا گیا ہے اور دوسرے فریق کا کہنا ہے نواز شریف اب رکن قومی اسمبلی نہیں رہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل جاری رکھے اور کہا کہ نواز شریف کی نا اہلی بطور رکن اسمبلی ہو سکتی ہے، بحیثیت وزیراعظم نہیں۔

انھوں نے محمود اختر نقوی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں بھی ارکان اسمبلی کو نااہل کیا گیا تھا، وزیراعظم کو نہیں۔

اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ 20 کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کو بھی دیکھنا ہوگا، اس کیس میں پوری قوم متعلقہ ہے کیونکہ فریق وزیراعظم ہے۔

مزید پڑھیں:پاناما کیس پر ن لیگ کی کمیشن بنانے کی تجویز

ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت الیکشن میں کامیابی کو چیلنج کرنے کی معیاد مختصر ہے اور معیاد ختم ہونے کے بعد آرٹیکل 184/3 اور 199 کے تحت آئینی عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض نہیں کیا۔

رٹ آف کو وارنٹو کے آپشن پر بحث

سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران مفاد عامہ میں دائر کی جانے والی پٹیشن (رٹ آف کو وارنٹو) کا آپشن بھی زیر بحث آیا۔

جسٹس گلزر احمد نے وکلاء سے معانت کے لیے کہا اور سوال اٹھایا کہ کہ کیا اس کیس کی کو وارنٹو کے تحت سماعت کی جاسکتی ہے؟

انھوں نے استفسار کیا کہ ایک آئینی مقدمے میں رٹ آف کو وارنٹو میں وزیراعظم کو کیسے نااہل کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا آرٹیکل 184/3 کے مقدمے کو کو وارنٹو میں تبدیل کیا جاسکتا ہے؟

جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر معاملہ رٹ آف کو وارنٹو سے بالاتر ہے، یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناماکیس:’دہری شہریت اورصادق، امین کی بنیاد پرنااہلی میں فرق‘

جس پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت عظمیٰ 184/3 کے دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے عوامی مفاد کے تحت کیس سن سکتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پھر اس دائرہ اختیار کے تحت عدالت کو شفاف انصاف کی فراہمی کے حق کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ یہاں پر پاناما سنگاپور اور آف شور کمپنیوں کا معاملہ نہیں بلکہ قانونی نقطہ نااہلی کا ہے، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ غیر متنازع دستاویزات حاصل کی جائیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو دستاویزات ہم مانگ رہے ہیں وہ موزیک فونیسکا کی ہیں جو قانونی معاونت کا ادارہ ہے۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی بیرون ملک کوئی ایسی سرمایہ کاری نہیں جو آف شور نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس کا بار ثبوت اب وزیراعظم کے وکلاء پر: سپریم کورٹ

ان کا مزید کہنا تھا کہ نیویارک ہوٹلز اور روز ویلٹ ہوٹل وغیرہ ٹیکس سے بچاؤ کے لیے آف شور ہیں، جس پر جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ یہ مثالیں دے کر اپنے موکل کے اقدامات کو درست ثابت کرنے کی کوشش کر ہے ہیں؟

وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس چھپایا نہیں بچایا جاتا ہے۔

جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ 'اس کا مطلب ہوا آپ یہی کرتے رہے ہیں'۔

اس موقع پر جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں، ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے۔

مریم نواز کی جائیداد کی تفصیلات

سماعت کے آغاز پر مریم نواز کے نام خریدی گئی جائیداد کی تفصیلات ان کے وکیل شاہد حامد ایڈووکیٹ نے عدالت میں پیش کیں، جن میں خریداری کی تاریخیں اور قانونی دستاویزات شامل تھیں۔

سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ کیا زمین والد نے بیٹی کے نام خریدی تھی؟

جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ والد نے بیٹی کے نام اراضی خریدی اور بعدازاں مریم نواز نے اراضی کی قیمت ادا کی تو زمین کا انتقال ہوا۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ زیر کفالت ہونے کی تعریف انکم ٹیکس قوانین میں ہے اور نہ ہی عوامی نمائندگی ایکٹ میں، لہذا کیس کو مدنظر رکھ کر ہی زیر کفالت کی تعریف کوسمجھنا ھوگا۔

مزید پڑھیں: شادی کے بعد والد کی زیرکفالت نہیں: مریم نواز

جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ نیب آرڈیننس میں بے نامی جائیدادوں کی تعریف تو ہے لیکن زیر کفالت کی نہیں۔

جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ بے نامی کے حوالے سے عدالت کے متعدد فیصلے موجود ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر والد زیر کفالت بچوں کو جائیداد خرید کر دیتے ہیں۔

جبکہ جسٹس گلزار نے کہا کہ زیر کفالت ہونے کا فیصلہ حقائق کی بنیاد پر کرسکتے ہیں، ہماری تشویش زیر کفالت سے متعلق حقائق پر ہے، اس حوالے سے حقائق پیش کیے جائیں۔

مخدوم علی خان نے ایک مرتبہ پھر دعویٰ کیا کہ مریم نواز قطعی طور پر کسی کے زیر کفالت نہیں اور مالی طور پر خود مختار ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ مریم نواز کے اثاثوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے اخراجات کیسے برداشت کرتی ہیں اور اس ضمن میں مزید حقائق ان کے وکیل شاہد حامد پیش کریں گے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز یعنی 18 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز اس بات کو دہراتے ہوئے کیا تھا کہ مریم نواز اپنے والد کی زیر کفالت نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:’ٹیکس فارم میں نام لکھنے کامطلب یہ نہیں کہ مریم زیرکفالت ہیں‘

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے یہ الزام کبھی تسلیم نہیں کیا کہ مریم ان کی زیرکفالت ہیں جبکہ ان پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ مریم کو کاغذات نامزدگی میں وزیراعظم کے زیر کفالت ظاہر کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم کے مخالف امیدوار نے بھی کاغذات نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے اب ریفرنس دائر کیا ہے۔

وزیراعظم کے وکیل کے دلائل مکمل

آج کی سماعت میں وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد کیس کی سماعت کل بروز جمعہ (20 جنوری) تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

کل جماعت اسلامی کے وکیل اپنے دلائل دیں گے۔

یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جبکہ نئے چیف جسٹس ثاقب نثار 5 رکنی لارجر بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔

لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

واضح رہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr MuhammadkhanYousafzai Jan 20, 2017 01:56am
کیس کا کیا نتیجہ نکلتا ھے یہ فیصلہ عدالت کریگی کمیشن بنانے کا کہنا بھی فیصلہ تصور ھوگا عدالت خود بھی موجودہ مقدمے میں فیصلہ کرسکتی ھے لیکن یہ بات اھم ھے کہ کیس لمبا چلیگا اتنی جلدی ختم نہیں ھوگا

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024