مہناز بیگم: مدھر آواز کی لازوال مہک
"مرثیہ خوانی ہمارا خاندانی کام ہے، سات پیڑھیاں اسی کام میں گزر گئی ہیں اور ہاں میری والدہ کی آواز بہت خوبصورت تھی، اگر میں ان سے موسیقی باقاعدہ سیکھتی تو یقیناً اور بڑی گلوکارہ ہوتی۔ والد صاحب کہتے تھے کہ پہلے پڑھو اس کے بعد موسیقی اور مصوری کی طرف جانا یا ایئر ہوسٹس بننا۔"
یہ سب یادیں ہیں ہمارے ملک کی مقبول اور مایہ ناز گلوکارہ مہناز کی۔ مہناز 1958 میں پیدا ہوئیں ان کا اصل نام کنیز فاطمہ تھا۔ وہ برصغیر کی معروف گلوکارہ اور نوحہ خواں کجن بیگم کی صاحب زادی تھیں۔ وہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ ان کا تعلق ہندوستان کے علاقے محمود آباد سے تھا، جبکہ کچھ کے نزدیک ان کے آبا و اجداد لکھنؤ کے باسی تھے۔ تاہم 1950 میں وہ کراچی میں قیام پذیر ہوئیں۔
مہناز گلوکاری کے اس دور سے تعلق رکھتی ہیں جب نثار بزمی کے زمانے میں براہ راست گانے نشر ہوتے تھے۔ وہ خود کہتی تھیں کہ ایک ایک گانے کو اسی طرح گانا ہوتا تھا، آج کل کے گلوکاروں کی طرح سترہ سترہ ری ٹیکس کی گنجائش نہیں ہوا کرتی تھی۔
مہناز گلوکاری میں خداداد صلاحیتوں سے مالا مال تھیں مگر ریڈیو گائیکی کی طرف آنا محض ایک اتفاق تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ ان کے کالج نے ملی نغموں کے ایک مقابلے میں حصہ لے رکھا تھا اور عین مقابلے کے روز جس طالبہ کو ملی نغمہ پیش کرنا تھا وہ بیمار ہو گئی۔ مہناز سوز و سلام تو پڑھتی تھیں، اس لیے انہیں اس لڑکی کی جگہ گانے کو کہا گیا اور مہناز نے "اے وطن کے سجیلے جوانو" گا کر بے پناہ داد سمیٹ لی۔
انہوں نے پہلی بار جس فلم میں گایا، وہ وحید مراد کی 'حقیقت' تھی جو کہ 1974 میں ریلیز ہوئی۔
اس فلم میں انہوں نے گلوکار احمد رشدی کے ہمراہ دوگانے گائے، جن کی موسیقی اے حمید نے ترتیب دی، جس کے بعد ان کے آگے نئی فلموں میں گلوکاری کے لیے آفرز کی لائن ہی لگ گئی۔ مگر ناگ اور ناگن وہ فلم تھی جس کے گیتوں کو گانے کے بعد بطور گلوکارہ وہ شہرت کی افق تک جا پہنچیں۔
مہناز اپنی ہم عصر گلوکاراؤں میں وہ واحد گلوکارہ ہیں جنہوں نے عمدہ فلمی گیت گانے پر 1977 سے 1983 تک سات سال مسلسل نگار ایوارڈ اپنے نام کیا۔ انہوں نے مجموعی طور پر کل گیارہ نگار ایوارڈ حاصل کیے۔
اپنی والدہ کجن بیگم کے زیر تربیت رہنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے شہنشاہ غزل مہدی حسن کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر سے بھی موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر انہیں متعارف کروانے کا سہرا امیر امام کو جاتا ہے جنہوں نے انہیں پروگرام نغمہ زار میں گیت گوائے، جبکہ ریڈیو پر انہیں 1973 میں سلیم گیلانی نے متعارف کروایا۔
ان کے خالو سید تراب نقوی نے بھی ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی غرض سے کافی معاونت کی۔ وہ ریڈیو پاکستان میں سینئر پروڈیوسر تھے۔
مہناز کے گائے ہوئے گانوں کی بات کریں تو انہوں نے ریڈیو ٹی وی اور فلم کے لیے کم ازکم ڈھائی ہزار گانے گائے جن میں پنجابی زبان کے گانے بھی شامل ہیں۔ مہناز نے بہت سی نعتیں بھی ریکارڈ کروائیں جس میں ایک نعت کافی مقبول ہوئی۔
جو نہ ہوتا تیرا جمال ہی
تو جہاں تھا خواب و خیال ہی
صلو علیہ وآلہ
انہوں نے پاکستان کے ادارے قومی بچت کے لیے بھی ایک خصوصی گیت ریکارڈ کروایا جس کے بول تھے ’’ہم یہ جو بچاتے ہیں وطن کے کام آتا ہے۔’’
'مجھے دل سے نہ بھلانا'، 'میرا پیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا'، 'وعدہ کرو ساجنا' چند ایسے گیت ہیں جن کی دھن، موسیقی اور مدھر آواز آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھولتی ہے۔
انہیں گانا گانے کے لیے اپنے والدین کی سپورٹ حاصل تھی لیکن ان کے ددھیال والے ان کے والدین کے برعکس نسبتاً کم آزاد خیال تھے اور ان کی موسیقی پر اعتراض کرتے تھے لیکن والدہ کی سپورٹ ہونے اور پھر اچھی آواز کی وجہ سے کوئی بھی تنقید ان کی راہ میں حائل نہ ہو سکی۔
1977 میں ہدایتکار مسعود پرویز کی ایک فلم کے لیے اس وقت کی چوٹی کے عظیم موسیقاروں نے دھنیں بھی ترتیب دیں اور گانوں کے بول بھی لکھے۔ ان موسیقاروں میں اے حمید، صفدر حسین، خواجہ خورشید انور، ناشاد، نذیر بھٹی، کمال احمد، اور ماسٹر عنایت حسین شامل تھے۔ خاص بات یہ تھی کہ اس فلم کے ساتوں کے ساتوں گیت مہناز نے ہی گائے۔
موسیقی کے لیے خدمات پر انہیں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہءِ حسن کارکردگی سے بھی نوازا اور کئی اعزازت ان کا نصیب بنے، جن میں گیارہ نگار ایوارڈ، دو نیشنل ایوارڈ، سات گریجوئیٹ ایوارڈ اور ایک پی ٹی وی ایوارڈ بھی شامل ہے۔
مگر ایک اعزاز اور بھی ہے۔ جب ملکہ ترنم نور جہاں علالت کے سبب کراچی میں زیر علاج تھیں، تو ایک دن مہناز ان کی عیادت کے لیے ہسپتال آئیں تو میڈم نور جہاں نے مہناز کی آمد پر مسرت اظہار کیا اور ان سے فرمائش کی کہ ’’مہناز جی مجھے وہ گانا سنا دو، دیار غیر میں کیسے بسر ہو؟ کوئی تو چاہنے والی نظر ہو۔" مہناز اپنے وقت کی سب سے بڑی گلوکارہ سے ملنے والی اس پذیرائی کو اپنے لیے ایوارڈ تصور کیا کرتی تھیں۔ میڈم نور جہاں خود بہت بڑی گلوکارہ تھیں لیکن اکثر کہا کرتی تھیں کہ مہناز بہت سریلی ہے۔
ہمارے معاشرے میں فنکاروں کے بارے میں طرح طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں، مگر ان سب کے برعکس مہناز نہایت عاجز و منکسر مزاج تھیں۔ نماز پنجگانہ کی پابند تھیں، اور موسیقی کی بھی قدر کرتی تھیں۔ زیادہ محفلوں کی شوقین نہیں تھیں اور بقول ان کے وہ وہاں کبھی نہیں جاتی تھیں جہاں موسیقی کے قدر دان نہ ہوں۔
گو کہ مہناز آج ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ان کی آواز کا جادو آج بھی سننے والوں پر سحر طاری کر دیتا ہے۔