'پاکستان صحافی کے قتل کی تحقیقات کرے'
دنیا بھر میں آزادی صحافت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی امریکی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ گزشتہ دنوں قلات میں صحافی کے قتل کی تحقیقات کرے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق میڈیا واچ ڈاگ سی پی جے نے اپنے بیان میں 37 سالہ صحافی محمد جان کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جنہیں جمعرات کی شب قلات میں نامعلوم حملہ آوروں نے قتل کردیا تھا۔
صحافی محمد جان مقامی اخبار روزنامہ قدرت کے لیے کام کرتا تھا اور اسکول میں بھی پڑھاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سال 2016: ’پاکستان میں کوئی صحافی قتل نہیں ہوا‘
اس واقعے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی تاہم پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔
سی پی جے کے مطابق 1992 سے 2016 تک پاکستان میں تقریباً 59 صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔
قبل ازیں بلوچستان یونین آف جرنلسٹس اور کوئٹہ پریس کلب کے عہدے داروں نے بھی صحافی محمد جان کے قتل کی مذمت کی تھی اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ واقعے کے ذمہ داران کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ 10 برسوں کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ٹی وی کیمرہ مین سمیت 40 کے قریب صحافی ٹارگٹ کلنگ اور خود کش دھماکوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھیں: ’ہر 4 سے 5 دن میں ایک صحافی کا قتل‘
دسمبر 2016 میں سی پی جے نے خصوصی رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سال 2016 میں پاکستان میں کسی صحافی کو ’فرائض کی انجام دہی‘ کی پاداش میں قتل نہیں کیا گیا اور یہ 2001 کے بعد پہلا موقع ہے جب ایک سال کے عرصے کے دوران کوئی صحافی قتل نہیں ہوا۔
نومبر 2016 میں یونیسکو کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دنیا میں ہر چار سے پانچ دنوں میں ایک صحافی کو ہلاک کردیا جاتا ہے۔
یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ گزشتہ دہائی کے دوران 827 صحافی فرائض کی انجام دہی کے دوران مارے گئے۔
رپورٹ میں شام، عراق، یمن اور لیبیا کو صحافیوں کے لیے بدترین ممالک قرار دیا گیا تھا۔