• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

’پاک امریکا افواج کا تعلق دوبارہ استوار کرنے کی ضرورت‘

شائع January 14, 2017

واشنگٹن: امریکا کے نامزد سیکریٹری دفاع جیمز میٹس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکا کے ساتھ اہم ترین معاملات پر مزید تعاون کے لیے پاکستان کی حوصلہ افزائی کرے گی۔

سینیٹ کی آرمڈ فورسز کمیٹی میں سماعت کے موقع پر جیمز میٹس نے پاکستان سے تعاون کی ضرورت کا اظہار کرتے ہوئے خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اسلام آباد کو مزید کام کرنے پر زور دیا۔

ایک سوال کے جواب میں نامزد سیکریٹری دفاع کا کمیٹی کو بتانا تھا کہ ’اگر تصدیق ہوجاتی ہے تو میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور کانگریس کے ساتھ مل کر پاکستان کے تعاون کی حوصلہ افزائی کروں گا، خصوصاً ان معاملات پر جو امریکا کے قومی مفاد اور خطے کی سیکیورٹی کے لیے اہم ہیں، اس بات پر بھی غور رکھا جائے گا کہ پاکستان کو اس کی سرحد میں فعال خارجی دہشت گرد گروہوں کو باہر نکالنے اور انہیں بے اثر کرنے کی ضرورت ہے۔

جیمز میٹس امریکا کی فوج کے میرین کور سے 2013 میں ریٹائرڈ بحیثیت جنرل ریٹائر ہوئے، ان کو افغانستان اور پاکستان میں معاملات کو دیکھنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، انہوں نے پہلے جنگ میں افسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں بعد ازاں امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر رہے۔

اپنے جارحانہ رویئے کی وجہ سے انہیں امریکی فوج میں پاگل کتا میٹس یا ‘میڈ ڈاگ میٹس‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، تاہم ان کی بہادری کی وجہ سے بھی ان کی فوج میں عزت موجود تھی۔

جنرل ٹیمس کے پاکستان پر یہ تبصرہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے ساتھ موجودہ امریکی پالیسی کو ہی جاری رکھے گی۔

جنرل جیمز ٹیمس نے پاکستان میں موجود دہشت گروہوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو سراہا، مگر ساتھ ہی اس بات پر زور بھی دیا کہ پڑوسی ممالک کو نشانہ بنانے والے گروہوں کے خلاف مزید مؤثر کارروائی کی جائے۔

اوباما انتظامیہ کے حکام ہی کی طرح نامزد سیکریٹری دفاع نے بھی اس بات کی شکایت کی کہ چند افغان طالبان گروہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کا استعمال کرکے افغانستان میں صورتحال کشیدہ کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی حدود میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور انہیں میسر نقل وحرکت کی آزادی افغان سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی راہ میں سب سے بڑا مسئلہ ہے‘۔

ان کامزید کہنا تھا کہ اگر وہ عہدہ سنبھالتے ہیں تو، افغانستان کے استحکام اور سیکیورٹی کو متاثر کرنے والے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے انکار کرنے والی کوششوں کا جائزہ لیں گے۔

ان کے مطابق امریکی اور پاکستانی افواج کا بہت پرانا تعلق ہے جسے دوبارہ استوار کرنے کی ضرورت ہے۔

پاک امریکا تعلقات اور بالخصوص افواج کے درمیان تعلقات پر انہوں نے سینیٹ کمیٹی کو کہا کہ ’خطے میں ہمارے مقاصد کو لے کر پاکستانی فوج اور حکومت پر ہمارا اعتماد متاثر رہا ہے، اگر وہ عہدہ سنبھالتے ہیں تو پائیدار تعلق کے لیے اس اعتماد کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔

جیمز میٹس کے مطابق، ’طالبان سے سامنے کے بعد پاکستان کچھ ’مشکل سبق حاصل کرچکا ہے‘ جو کہ ملک بھر میں پھیلنے والا تشدد تھا تاہم میرا ماننا ہے کہ مزید کام کے لیے پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مشترکہ کام کرنا چاہیئے، ہم پاکستان سے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف مزید کارروائیوں کا مطالبہ کرتے ہیں‘۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہا کہ خطے کے تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ افغانستان مین مفاہمت کو عمل کو بہتر بنانے کے لیے تعاون کریں اور افغان طالبان اور اس سے منسلک دہشت گردوں کے نیٹورکس پر دباؤ بڑھائیں۔

انہوں نے پاکستان کی اندرونی دہشت گرد عناصر سے جاری جنگ کو بھی سراہا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ ان عناصر سے نمٹنے کے دوران پاکستانی افواج کو بھی بہت سے نقصانات برداشت کرنے پڑے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے ان دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پاکستان کو مدد کی پیشکش بھی کی۔

جیمز میٹس کا کہنا تھا وہ چین سے اپنے تعلقات کی بات کرتے ہوئے ’ری بیلنس‘ اور ’پائیوٹ‘ جیسے الفاظ کا استعمال نہیں کریں گے۔

لیکن ان کے مطابق چین کے رویے نے خطے میں موجود ممالک کو امریکی قیادت سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میں عہدہ سنبھالتا ہوں تو میں اپنے حریفوں اور حمایتی دونوں سے تعلقات بہتر کرنے کے طریقوں پر زور دے گا۔

ساتھ ہی انہوں نے انڈیا کے ساتھ طویل المعیادی مصالحتی تعلقات پر اوباما انتظامیہ کی پالیسی کو جاری رکھنے کی درخواست کی۔


یہ خبر 14 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024