'نائلہ کو خدشہ تھا کہ اس پر شادی کیلئے دباؤ ڈالا جائے گا'
حیدرآباد: نائلہ رند کی پراسرار موت کی تحقیقات کرنے والی سندھ یونیورسٹی کی کمیٹی طالبہ کی موت کے پیچھے موجود عوامل کو واضح کرنے میں تو ناکام رہی تاہم کمیٹی نے نائلہ کی دوست کے حوالے سے بتایا ہے کہ 'وہ ماسٹرز کرنے کے بعد اس حوالے سے خدشات کا شکار تھی کہ اسے پی ایچ ڈی کا خواب ترک کرکے شادی کرنے کو کہا جائے گا'۔
یونیورسٹی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جمعرات 12 جنوری کو کمیٹی نے اپنی رپورٹ سندھ یونیورسٹی کے رجسٹرار کو پیش کی، جو صرف نائلہ کی موت اور گرلز ہاسٹل کی سیکیورٹی اور مینجمنٹ میں 'خرابیوں' کے گرد گھومتی ہے۔
سندھ یونیورسٹی کے شعبہ سندھی میں فائنل ایئر کی طالبہ نائلہ رند کی لاش سالِ نو کے پہلے روز ماروی ہاسٹل کے ایک کمرے میں پنکھے سے لٹکی ہوئی پائی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: سندھ یونیورسٹی: طالبہ کی مبینہ خودکشی
کمیٹی کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بذریعہ ٹیلی فون ڈان کو بتایا، 'نائلہ کی موت کے پس پردہ عوامل جاننا بنیادی طور پر ہمارا مینڈیٹ نہیں تھا اور نہ ہی ہمیں ایسی کسی چیز تک رسائی تھی جس سے ہمیں طالبہ کی موت کی وجہ جاننے میں کچھ مدد ملتی'۔
انھوں نے تصدیق کی کہ رپورٹ یونیورسٹی کے رجسٹرار کو جمع کرائی جاچکی ہے۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے پاس پوسٹ مارٹم رپورٹس، موبائل فون ڈیٹا، ہاسٹل کے رجسٹر وغیرہ کا ریکارڈ نہیں تھا اور نہ ہی انھیں اس کمرے تک رسائی دی گئی، جہاں سے نائلہ کی لاش برآمد ہوئی تھی، 'پہلے دن سے ہی ہم نے یہ واضح کردیا تھا کہ کمیٹی کریمنل انویسٹی گیشن نہیں کرے گی کیونکہ یہ پولیس کا کام ہے'۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کچھ تجاویز دیں جن میں ہاسٹل کے انتظام اور سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے طلبا کے قیام کے ریکارڈ کو خودکار بنانے سمیت دیگر اقدامات شامل ہیں۔
ایک اور رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، 'ریکارڈ کو خودکار بنانے کے ساتھ ساتھ بائیو میٹرک سسٹم متعارف کروانا بھی ہماری تجاویز میں شامل ہے، تاکہ سندھ یونیورسٹی، ہاسٹل کے طلبا کے آنے جانے کے لیے رجسٹرز میں اندراج جیسے نظام سے نجات حاصل کرسکے'۔
تاہم کمیٹی نے نائلہ کی کچھ سہیلیوں سے بھی گفتگو کی، کمیٹی کے ایک رکن نے بتایا، 'اس کا حلقہ احباب محدود تھا، ہم صرف چند ہی لڑکیوں سے انٹرویو کرسکے جن کا خیال تھا کہ نائلہ اس وجہ سے دباؤ میں تھی کہ اس کا ماسٹرز مکمل ہوگیا تھا، جس کے بعد اس کے گھر والے اسے شادی کے لیے کہیں گے اور وہ اپنا پی ایچ ڈی یا ایم فل کی تعلیم حاصل نہیں کرسکے گی'۔
ساتھ ہی انھوں نے بتایا کہ کمیٹی نائلہ کے والدین سے بات کے بعد ان کے بیانات شامل نہیں کرسکی، 'نائلہ کی موت کے بعد صورتحال نے ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دی کہ ہم جامشورو میں اس کی میت وصول کرنے کے لیے آنے والے والدین پر باقاعدہ بیان ریکارڈ کروانے کے لیے دباؤ ڈالیں'۔
یہ بھی پڑھیں:نائلہ رند کی خودکشی پر وزیرِ مملکت انوشہ رحمان کے نام کھلا خط
ان کا کہنا تھا کہ نائلہ کی دوستوں نے کمیٹی کو بتایا کہ نائلہ اپنے تیسرے سیمسٹر تک بالکل ٹھیک تھی، 'تاہم فائنل ایئر کے بعد شادی کے حوالے سے دباؤ سے متعلق اس نے کئی مرتبہ غیر رسمی بات چیت کی'۔
مذکورہ رکن نے بتایا کہ نائلہ کو خدشہ تھا کہ شادی کے بعد وہ پی ایچ ڈی نہیں کرسکے گی اور اپنے شوہر کے رحم و کرم پر ہوگی اور معلوم نہیں وہ اسے پڑھنے کی اجازت دے بھی یا نہیں۔
انکوائری ٹیم نے فائنل ایئر کے طلبہ کی سرکاری چھٹیوں کے دوران ہاسٹل میں قیام پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور کہا، 'انھیں چھٹیوں کے بعد ہاسٹل میں رہائش کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ غیر معمولی بات ہے اور سندھ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو اسے سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے'۔
کمیٹی کے ایک رکن کے مطابق، 'تکنیکی طور پر وہ فائنل ایئر کی طالبہ تھی اور اسے ہاسٹل میں نہیں رہنا چاہیے تھا، تاہم اس کا قیام غیر قانونی نہیں کیونکہ وہ سندھی ڈپارٹمنٹ میں اپنا مونو گراف جمع کروانے کی تیاری کر رہی تھی'، انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی کو حاضری کے لیے بائیومیٹرک سسٹم اور گرلز ہاسٹل میں سی سی ٹی وی کیمروں کو نصب کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: ’شادی کا وعدہ پورا نہ ہونے پر نائلہ نے خودکشی کی‘
کمیٹی نے ہاسٹل کے عملے، اساتذہ اور نائلہ کی دوستوں سمیت 20 افراد کے بیانات اور انٹرویو ریکارڈ کیے۔
ایک رکن نے بتایا کہ ہاسٹل میں کمرے الاٹ کیے جانے کے عمل میں والدین کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے اور انھیں ان کمروں تک بھی رسائی دی جانی چاہیئے جہاں ان کے بچے قیام کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ نائلہ 31 دسمبر 2016 کو ہاسٹل آئی اور اگلے ہی دن اس کی لاش کمرے میں پنکھے سے لٹکی ہوئی پائی گئی۔
مہران یونیورسٹی کا کلرک رہا
دوسری جانب پولیس نے مہران یونیورسٹی آف انجیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (ایم یو ای ٹی) کے کلرک آغا بابر پٹھان کو گرفتاری کے چند گھنٹوں بعد ہی رہا کردیا۔
بابر پٹھان کو نائلہ کیس کے سلسلے میں تفتیش کی غرض سے گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نائلہ خودکشی کیس: مہران یونیورسٹی کا کلرک گرفتار
پولیس کے مطابق بابر سے اہم معلومات حاصل کرنے کے بعد اسے چھوڑا گیا تاہم اس کا موبائل اور لیپ ٹاپ پولیس کے قبضے میں ہے، جس میں سے مبینہ طور پر نائلہ سمیت یونیورسٹی کی دیگر طالبات کی تصاویر اور ویڈیوز برآمد ہوئی تھیں۔
بابر پٹھان کا قریبی دوست اور کیس کا مرکزی ملزم انیس خاصخیلی پہلے ہی گرفتار ہے، جس تک رسائی نائلہ کے موبائل ڈیٹا کی مدد سے حاصل کی گئی تھی۔
جامشورو کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) کیپٹن طارق ولایت کے مطابق اگر پولیس کو ملزم کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد ملے تو اسے دوبارہ بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
یہ خبر 13 جنوری 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی