طیبہ تشدد کیس میں نامزد جج کو کام سے روک دیا گیا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 10 سالہ بچی طیبہ تشدد کیس میں نامزد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج راجہ خرم علی خان کو عدالتی امور کی انجام دہی سے روک دیا۔
رجسٹرار اسلام آبادئی کورٹ راجہ جواد عباس حسن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق سول ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز ڈویژن شرقی اسلام آباد میں مقرر 20 ویں گریڈ کے عہدے پر فائز جج راجہ خرم سے عدالتی احکامات پر ان کی خدمات واپس لی جارہی ہیں۔
نوٹیفکیشن کے مطابق راجہ خرم کو تاحکم ثانی اسلام آباد ہائی کورٹ میں بطور آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی(او ایس ڈی)کام کرنے کی ہدایات کی گئی ہے۔
نوٹیفکیشن میں راجہ خرم کے کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کیس کا حوالہ نہیں دیا گیا۔
خیال رہے کہ 29 دسمبر 2016 کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشنز جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے مبینہ طور پر تشدد کا شکار کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ کو پولیس نے بازیاب کرایا تھا اور بعد ازاں راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
یہ وڈیو دیکھیں: گھریلو ملازمہ پرتشدد کا مقدمہ،ایڈیشنل سیشن جج پر الزام
اسلام آباد پولیس نے 2 دن قبل ہی طیبہ پر تشدد کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ طیبہ کو ایڈیشنل سیشنز جج راجہ خرم نے بطور ملازمہ گھر میں رکھا، جس کی وہ اسے ماہانہ تنخواہ بھی دیتے تھے۔
رپورٹ کے مطابق طیبہ کی تصاویر حمیرا نامی خاتون نے ملزمہ کے گھر میں بنائیں، طیبہ اور اس کے والدین فواد نامی شخص کے پاس رہائش پذیر تھے، 8 جنوری کو طیبہ اور اس کے والدین تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوئے جس کے بعد تینوں کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے طیبہ پر تشدد کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے سیشن کورٹ کی بے ضابطہ کارروائی کی نشاندہی کی تھی۔
مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: پولیس نے عدالت میں رپورٹ جمع کرادی
چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کو عدلیہ کی پابندیوں اور قانونی رعایت کے بغیر کیس کی تمام پہلوؤں سے تحقیق کے احکامات جاری کرتے ہوئے تفصیلی رپورٹ 10 روز میں جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
طیبہ تشدد کیس—کب کیا ہوا؟
کمسن ملازمہ پر تشدد کا معاملہ اُس وقت منظرعام پر آیا تھا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: طیبہ کے 'والدین' کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم
عدالت میں پیشی کے موقع پر بچی کے مبینہ والد کا کہنا تھا کہ انہیں عدالت کی جانب سے ملزم جج اور ان کی اہلیہ کو ضمانت دینے پر کوئی 'اعتراض' نہیں۔
بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی اور اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی۔