• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

غیر ارضی مخلوق کا نیا شکار

شائع January 13, 2017 اپ ڈیٹ January 14, 2017

"کھڑکیاں، در و دیوار تیز گڑگڑاہٹ سے لرز رہے ہیں، کمرے میں نامانوس سی تیز آواز گونج رہی ہے جس کے ماخذ کا پتہ چلانا مشکل ہے۔ کمرے کا واحد مکین دونوں ہاتھوں سے کان دبائے، آنکھیں میچے صوفے کے پیچھے چھپا بیٹھا ہے جیسے خود کو کسی نادیدہ دشمن سے بچانا چاہ رہا ہو۔

دروازوں اور کھڑکیوں کی دراڑوں سے تیز سفید روشنی کمرے میں داخل ہو رہی ہے۔ دفعتاً اندر سے مقفل کمرے کا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ کھلا، اور ساتھ ہی روشنی کا ایک تیز جھماکا آنکھوں کو چندھیا کر رکھ دیتا ہے۔ چند لمحے بعد جب روشنی قدرے معدوم اور آنکھیں کچھ دیکھنے کا قابل ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کمرہ خالی ہے یعنی ساز و سامان تو موجود ہے لیکن کمرے کا واحد مکین غائب ہے۔ اطراف میں کسی قسم کی ہلچل کے نشان نہیں ملتے البتہ کمرے کا دروازہ پہلے کی طرح اندر سے مقفل ہے۔"

یہ منظر 1990 کی دہائی میں مافوق الفطرت کہانیوں پر مشتمل ایک امریکی ڈرامہ سیریز "دی ایکس فائلز" کا ہے۔ یہ ڈراؤنی، سنسنی خیز کہانیاں سائنسی فکشن پر مبنی ہوتیں لیکن اس کا مرکزی خیال غیر ارضی مخلوق (Aliens) اور ان کے گرد گھومتی گمشدہ افراد کی کہانیاں تھیں۔ ایک طویل عرصے تک یہ سیریز دیکھنے والوں میں مقبول رہی۔

دی ایکس فائلز کے مرکزی کردار دو ایف بی آئی ایجنٹ فاکس ملڈر اور ڈانا اِسکلی تھے۔ اسکلی بنیادی طور پر ڈاکٹر تھی اور ایف بی آئی میں بطور ملڈر کی پارٹنر کام کر رہی تھی اور ہر کیس کی جانچ سائنسی نکتہ نظر سے کرتی تھی۔

ملڈر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اس وسیع کائنات میں انسان اکیلا نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ایسی کوئی مخلوق موجود ہے جو عقل و دانش میں ہم سے بہتر ہے۔

اس کی ذاتی زندگی میں بھی کچھ ایسے واقعات گزرے تھے جن کا براہ راست تعلق غیر ارضی مخلوق سے تھا چنانچہ اس نے اپنی زندگی اسی سچ کی کھوج میں وقف کردی کہ اس کائنات میں ہم تنہا نہیں ہیں اور ملک میں جابجا ہونے والی بعض نامعلوم گمشدگیوں کا تعلق کہیں نہ کہیں ان سے ضرور ہے۔

اپنی اسی کھوج کے دوران ملڈر اور اِسکلی پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ غیر ارضی مخلوق ناصرف حقیقتاً موجود ہے بلکہ حکومت کے ایک خفیہ ادارے سے مستقل رابطے میں بھی ہے۔

یہ ادارہ یا افراد کا گروہ ناصرف غیر ارضی مخلوق کی موجودگی کو خفیہ رکھنے، بلکہ انسانوں پر ممکنہ مبینہ حملے کی پیش بندی کے لیے بنایا گیا تھا۔

جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے، ایف بی آئی ایجنٹس پر یہ بھی آشکار ہوتا ہے کہ ان گمشدگیوں کی ذمہ دار اکیلی غیر ارضی مخلوق ہی نہیں بلکہ "دی سنڈیکیٹ " نامی یہ خفیہ گروہ بھی ہے جو تجربات کی غرض سے ایلین ٹیکنالوجی انسانوں پر آزما رہا ہے۔ متجسس طبعیت رکھنے والے افراد یہ سیریز انتہائی شوق سے دیکھتے تھے۔

یہاں دی ایکس فائلز کا ذکر کیوں؟

بات یہ ہے کہ طویل عرصے سے پیارے وطن میں بھی لوگ اسی طرح رات کی تاریکی میں غائب ہو رہے ہیں جس طرح دی ایکس فائلز میں ہوتے تھے، اور ایسے غائب ہوتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔

پڑھیے: سلمان حیدر بھی 'وہی فائل' بن گئے

جن افراد کی گمشدگی کی اڑتی اڑتی خبریں میڈیا تک پہنچ پاتی ہیں ان کے بارے میں کچھ عرصے تھوڑی ہل چل رہتی ہے ورنہ اکثروں کے گھر والے رو پیٹ کر صبر کر لیتے ہیں۔ اور ہم آپ جیسے لوگ "یہ میرا مسئلہ نہیں " کہہ کر چینل بدل لیتے ہیں، یا پھر اخبار لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں۔

یہ کیوں غائب ہوئے؟ کیسے غائب ہوئے؟ کس نے انہیں غائب کیا؟ ان سب سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہوتا، ہم تو یہ جانتے ہیں کہ غائب ہونے والے لوگ "لاپتہ افراد" ہیں اور غائب کرنے والے "نامعلوم افراد"۔

سلمان حیدر، وقاص گورایہ، عاصم سعید اور دیگر سماجی کارکن اور سیکولر بلاگرز گزشتہ دنوں ایک کے بعد ایک بنا نام و نشان راتوں رات لاپتہ ہو گئے۔ پرنٹ میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک عوامی رابطے کے تمام فورمز پر مسلسل شور و غل مچانے کے باوجود اب تک ان کا کچھ اتا پتا نہیں چل سکا۔

اب ہم کوئی امریکا جیسے ترقی یافتہ تو ہیں نہیں جنہوں نے سائنس کے میدان میں اتنے جھنڈے گاڑ رکھے ہوں کہ کوئی غیر ارضی مخلوق ہماری قابلیت سے جل کر ہمارے بندے اٹھانے پہنچ جائے۔

امریکی تو چاند تک پہنچ چکے ہیں، ہم بیچارے تو دوسرے صوبے تک بنا سنگین نتائج کے نہیں جا سکتے۔ لے دے کر ایک جوہری طاقت ہے جس پر ہم چھاتی پھلائے پھرتے ہیں۔ تو بھلا ان افراد کو کون اٹھا کر لے گیا؟ کیا کوئی ذاتی پرخاش تھی یا تاوان کا معاملہ یا کوئی دوسرا ایجنڈا؟

بہرحال ہم تو یہ جانتے ہیں کہ وہ بالکل بے ضرر لوگ تھے جو بعضوں کے برعکس نفرت اور تفریق کی آگ پھیلانے کے بجائے محض لوگوں کو اپنی سوچ استعمال کرنے اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کا شعور دیتے تھے۔ وہ ہر اس سوچ پر تنقید کرتے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کا دشمن بنا دے۔ چلیں شاید میرا یہ دعویٰ غلط ہو لیکن ملک میں دہشتگردی کا لقمہ بننے والے ساٹھ ہزار افراد کا خون ان کی گردن پر نہیں ہے۔

اگر وہ خونی نہیں چور نہیں ڈاکو نہیں تو پھر اس طرح رات کی تاریکی میں کہاں چلے گئے؟ اور آخر میڈیا فورمز پر مسلسل سوال اٹھائے جانے کے باوجود کوئی اس حوالے سے جواب دینے سے قاصر کیوں ہے؟ ریاست کا کام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور اگر کسی وجہ سے وہ اس میں ناکام رہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ مجرمین کا سراغ لگائے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں پیش کرے۔

مزید پڑھیے: میں کیوں لاپتہ نہیں ہو سکتی

یہاں صورت حال یہ ہے کہ لوگ ان گمشدگیوں کے پیچھے گلا پھاڑ پھاڑ کر آدھے ہو گئے لیکن حکومتی ادارے کسی قسم کا تسلّی بخش بیان دینے سے قاصر مانو چُپ شاہ کا روزہ رکھے بیٹھے ہیں۔

اب اگرایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں گمشدگیوں کے پیچھے کوئی زمینی عناصر ملوث نہیں تو ہمارے آپ کے پاس بس یہی ایک وضاحت رہ جاتی ہے کہ ضرور یہ حضرات غیر ارضی مخلوق کا شکار ہوگئے ہیں۔

کیا واقعی ایسا ہی ہے؟

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

نوید نسیم Jan 13, 2017 06:32pm
گمشدگان پہلے لاپتا تھے۔ اب تو سب کو پتا ہے کہ کہاں ہیں۔
ahmak adamı Jan 13, 2017 11:40pm
ناہید اسرار I agree that people should know the crime of th people who are lost. Also tell me what should we do with provacators like bhensa and mochi.
Faisal Hussain Jan 14, 2017 01:20pm
Madam lots of persons are missing so focus on all not only on selected.
راجہ کامران Jan 14, 2017 02:23pm
کسی شخص کو لاپتہ کرنے مسئلہ کا حل نہیں ہے، یہ اس وقت بھی ہم کہتے تھے جب اسلام پسندوں کو اٹھا اٹھا کر غائب کیا جارہا تھا، اور اب بھی یہ بات کہہ رہا ہوں جب نام نہاد لبرل افراد کو غائب کیا جارہا ہے۔۔۔ سلمان حیدر اور دیگر کے نظریات سے حد درجہ اختلاف کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہیں بازیاب کرانا چاہیے اور ان پر جو بھی الزام ہے، اس پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے،،،

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024