'نیب ترمیمی آرڈیننس پارلیمانی کمیٹی کی توہین'
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے نیب ترمیمی آرڈیننس واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔
شاہ محمود قریشی کی جانب سے یہ مطالبہ نیب قانون کا از سر نو جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں سامنے آیا۔
شاہ محمود قریشی نے نیب ترمیمی آرڈیننس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے بعد صدارتی آرڈیننس جاری کیا جانا سمجھ سے بالاتر ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر حکومت نیب ترمیمی آرڈیننس پر نظرثانی کے لئے تیار ہے تو پھر اسے واپس لے لیا جائے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نیب ترمیمی آرڈیننس پارلیمانی کمیٹی کی توہین ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب کا پلی بارگین کا اختیار ختم، آرڈیننس جاری
اس موقع پر آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ ’حکومت نے جلد بازی میں نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کیا، اس میں بہت سی خامیاں ہیں، اگر ہمت ہے تو احتساب قانون میں ججز اور جرنیلوں کو بھی شامل کیا جائے‘۔
اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’اگر ہمت نہیں ہے تو پھر فاتحہ پڑھ لیتے ہیں‘۔
بدھ کے روز پارلیمانی کمیٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر قانون زائد حامد کو کمیٹی کا چیئرمین منتخب کرلیا گیا۔
کمیٹی کے اجلاس میں وزیر قانون زاہد حامد ترمیمی آرڈیننس کا دفاع کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ پلی بارگین کے معاملے پر بہت زیادہ تنقید ہورہی تھی،سپریم کورٹ نے رقم کی رضاکارانہ واپسی کے عمل کو بھی معطل کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چئیرمین سینیٹ نے احتساب کے معاملے پر عوام کے نام کھلا خط لکھا، اپوزیشن نے نیب ترمیمی آرڈیننس سے اتفاق نہ کیا تو اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے، نیب قانون پر اپوزیشن کی تمام تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’پلی بارگین اور رضا کارانہ واپسی پر پہلے سے اتفاق ہوگیا تھا، یہ غلط قانون تھا جس کے خاتمہ کے لئے آرڈیننس لائے، سپریم کورٹ میں بھی اس قانون پر تنقید ہوئی اور واضح موقف اختیار کرنے کا کہا گیا‘۔
زائد حامد نے بتایا کہ ’سپریم کورٹ کے آبزرویشن اور احکامات وزیراعظم کے نوٹس میں لائے اور پھر کابینہ کی منظوری کے بعد آرڈیننس لایا گیا‘۔
مزید پڑھیں: چیئرمین نیب کی جانب سے 'پلی بارگین' قانون کا دفاع
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے رکن نوید قمر نے آرڈیننس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’جب کمیٹی بن گئی تھی تو پھر آرڈیننس کیوں لایا گیا‘۔
اس پر زاہد حامد نے کہا کہ ’کمیٹی کو مکمل اختیارات ہوں گے اگر کمیٹی کو کچھ پسند نہ آیا تو ترمیم کی جاسکتی ہے،اپوزیشن نیب ترمیمی آرڈیننس میں ترامیم کرنا چاہے تو ہم تیار ہیں‘۔
کمیٹی کے رکن عبدالقادر بلوچ نے موقف اپنایا کہ ’نیب قوانین پر نظرثانی میں وقت لگتا لیکن آرڈیننس کے ذریعے پلی بارگین اور رضا کارانہ واپسی کے قانون کا خاتمہ وقت کی ضرورت تھی،نیب آرڈیننس کو متنازع نہ بنایا جائے‘۔
سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ احتساب کے عمل سے کسی کو بالاتر نہیں ہونا چاہیے، کوئی سیاسی جماعت ہو یا ادارہ احتساب سب کا ہونا چاہئے‘۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بھی جاوید عباسی کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’افواج پاکستان اور عدلیہ کا بھی احتساب ہونا چاہئے، صرف سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے احتساب سے قانون مکمل نہیں ہوگا‘۔
یہ بھی پڑھیں: آرڈیننس اسمبلی میں بحث کے بعد لانا چاہیے تھا، پی ٹی آئی
انہوں نے نیب قانون پر نظر ثانی کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر نظرثانی کا بھی مطالبہ کردیا اور کہا کہ ٹی او آرز پر نظرثانی کرتے ہوئے اداروں کا احتساب بھی ہونا چاہیئے۔
پارلیمانی کمیٹی کمیٹی کا آئندہ اجلاس 17 جنوری کو ہوگا جو کہ ان کیمرہ ہوگا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’بلاامتیاز احتساب کا قانون لانےکی کوشش کریں گے، ہم چاہتے ہیں کہ احتساب قانون میں عوامی رائے بھی لی جائے، احتساب پر نیا قانون لانے کی ضرورت ہے‘۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ احتساب کمیٹی نیب آرڈیننس کی پابند نہیں ہوگی اور فیصلہ کیا گیا کہ کمیٹی اٹھارویں ترمیم کے طرز پر کام کرے گی‘۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی احتساب کمیٹی کی تشکیل کےساتھ ہی نیب آرڈیننس لانےکی کیا ضرورت تھی، کرپشن آج قومی ایشو ہے جس پر بحث جاری ہے، نیب و دیگر قوانین کے باوجود کرپشن کم نہیں ہوئی‘۔
واضح رہے کہ 7 جنوری کو صدر مملکت ممنون حسین کی جانب سے احتساب سے متعلق نیب ترمیمی آرڈیننس 2017 جاری ہونے کے بعد چیئرمین نیب کا پلی بارگین کا صوابدیدی اختیار ختم ہوگیا تھا۔
صدارتی آرڈیننس کے مطابق اب پلی بارگین کی منظوری عدالت دے گی، پلی بارگین کرنے والا شخص عوامی عہدے کے لیے تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا، جبکہ سرکاری ملازمت والا شخص پلی بارگین کرنے پر ملازمت سے فارغ تصور کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی نے اس وقت بھی آرڈیننس کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ آرڈیننس اسمبلی میں بحث کے بعد لانا چاہیے تھا۔