ترکی: طیب اردگان کے نئے اختیارات پر بحث
استنبول: ترک پارلیمان میں صدر رجب طیب اردگان کے صدارتی اختیارات میں اضافے کے لیے پیش کیے جانے والا نیا آئین بحث کی وجہ بن گیا۔
نئے پیش کردہ آئین، جس پر موسمِ بہار تک ریفرنڈم کرائے جانے کا امکان ہے،1980 میں ترک فوجی بغاوت کے بعد ختم کیے گئے تمام قوانین کو تبدیل کردے گا جبکہ یہ آئین پہلی بار عثمانی دور حکومت خاتمے کے بعد جدید جمہوریت پر حکمرانی کے لیے صدارتی نظام تشکیل دینے کی کوشش ہوگا۔
ناقدین کا دعویٰ ہے کہ یہ 2003 سے 2014 تک ترکی کے وزیراعظم اور پھر عہدہ صدارت سنبھالنے والے رجب طیب اردگان کی جانب سے طاقت کو غصب کرنے کا ایک قدم اور گذشتہ سال جولائی میں ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد یک شخصی حکمرانی کی کوشش ہے۔
تاہم اردگان اور حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کا کہنا تھا کہ صدارتی نظام ترکی کو فرانس اور امریکا جیسے ممالک کی قطار میں لاکھڑا کرے گا اور بہترین حکومت کے لیے اس کی اشد ضرورت ہے۔
18 شقی نئے آئین پر بحث کا آغازاس وقت ہوا جب پارلیمانی کمیشن نے اس کے ڈرافٹ کی منظوری دی، خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ دو سماعتوں کو ختم ہونے میں 13 سے 15 دن لگ سکتے ہیں۔
ترک خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ کی جانب سے غوروخوص کے آغاز کے بعد چند کوارٹرز سے احتجاج بلند کیا گیا اور کرد حامی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے قید شریک رہنما صلاحتین دیمارٹس نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے بھی بحث کی مخالفت کی۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی میں ناکام فوجی بغاوت، 265 افراد ہلاک
رہنما کا کہنا تھا کہ غیرقانونی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے مبینہ الازمات پر ان کی جماعت کے 11 ارکان کو گرفتار کرکے انہیں اس ڈرافٹ شدہ آئین کو چیلنج کرنے کے موقع سے روک دیا گیا اور بحث اور ووٹوں کو آغاز ہی سے متنازع بنادیا ہے۔
انقرہ میں ترک پارلیمان کے باہر اس آئین کے مخالفت میں ہونے والی ریلی کے مظاہرین پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور پیپر اسپرے کا استعمال کیا گیا، پولیس نے احتجاج کرنے والے افراد کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال بھی کیا۔
'اختیارات پر نظر'
مظاہرین میں شامل عبداللہ سندل کا فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتانا تھا کہ، وہ ایسا نظام نہیں چاہتے جہاں صرف ایک شخص حکمرانی کرے، اس ڈرافٹ کو قانون میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے ہمارے بس میں جو ہوا وہ کریں گے۔
واضح رہے کہ حکمراں جماعت اے کے پی کو بل کو جمع کرانے اور ووٹرز کی رائے حاصل کرنے کے لیے ریفرنڈم کرانے کے لیے 330 سے زائد ووٹ اور تقریباً 3/5 اکثریت کی ضرورت ہوگی۔
مزید پڑھیں: ترکی میں فوجی بغاوت کے خلاف ہوں، فتح اللہ گولن
دوسری جانب نومبر 2015 میں ہونے والے انتخابات میں اے کے پی کو پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی رہی تھی اور اسے اپوزیشن کی دائیں بازو کی تنظیم نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم پی ایچ) جو مقننہ میں چوتھی اکثریتی جماعت ہے، کی حمایت حاصل کرنی پڑی تھی۔
نئے آئین کو اکثریتی اپوزیشن جماعت رپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کی مخالفت کا بھی سامنا ہے جس کے نائب چیئرمین بیولنٹ تیزکان کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی ایک صدی قبل خلافتِ عثمانیہ سے لیے گئے اختیارات کو پھر محل کو فراہم کرنے کے مترادف ہوگی۔
یہ خبر 10 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔