بشارالاسد 'صدارت' سمیت تمام معاملات پر بات کیلئے تیار
دمشق: شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ ان کی حکومت قازقستان میں ہونے والے مجوزہ امن مذاکرات میں ’تمام مسائل‘ پر بات کرنے کے لیے تیار ہے، تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ باغیوں کی جانب سے ان مذاکرات میں کون شامل ہوگا اور یہ کب ہوں گے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز‘نے بشارالاسد کی فرانسیسی میڈیا سے کی جانے والی گفتگو کی رپورٹ دیتے ہوئے لکھا کہ شامی صدر کی یہ گفتگو مقامی سرکاری خبر رساں ایجنسی ثنا میں شائع ہوئی۔
شامی صدر بشارالاسد کا اپنی گفتگو میں کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ تمام مسائل پر بات کرنے کے لیے تیار ہے، تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے عہدہ صدارت پر بھی بات کرنے کے لیے تیار ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’میرا عہدہ شام کے آئین کے ساتھ منسلک ہے‘۔
بشارالاسد کا کہنا تھا کہ’اگر وہ میرے عہدہ صدارت پر بات کرنا چاہتے ہیں تو انہیں آئین پر لازمی بات کرنا ہوگی‘۔
انہوں نےاشارہ دیتے ہوئے کہا کہ عوامی ریفرنڈم کے ذریعے ملک کا نیا آئین بنایا جاسکتا ہے اور عوام ہی ملک کے نئے صدر کو منتخب کرسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: شام امن معاہدہ: سلامتی کونسل میں متفقہ قرارداد منظور
شامی صدر کا کہنا تھا کہ امن مذاکرات کے لیے دوسری جانب سے کون آئے گا اس متعلق ہم ابھی تک نہیں جانتے۔
بشار الاسد کا کہنا تھاکہ باغی گروپوں کے پیچھے خلیجی ملک، فرانس اور برطانیہ کا کردار ہے جب کہ شام کے مسائل پر مذاکرات کرنے والا گروپ شام کا ہی ہونا چاہئیے۔
مزید پڑھیں: شام: جنگ بندی، سیاسی اقتدارکی منتقلی کے شیڈول پر اتفاق
شامی صدر کے مطابق مذاکرات کرنے والے باغیوں کی اعلیٰ مذاکرات کمیٹی میں شامل مرکزی باغی گروپ ریاض کی چھتری تلے کام کرتا ہے، جب کہ شام میں لڑنے والے باغی ’ فری سیرین آرمی‘کے نام سے لڑ رہے ہیں اور انہوں نے دمشق کے قریب وادی برادہ سمیت دیگر علاقوں میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کرکے ’آستانہ‘میں ہونے والے مذاکرات میں بھی خلل ڈالا۔
شامی صدر نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ جنگ بندی میں روس اور ترکی نے ثالث کا کردار ادا کیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ باغیوں کو مشرقی حلب میں شکست کے بعد روس نے اس بات کا اعلان کیا تھاکہ شامی صدر بشارالاسد، روس، ترکی اور ایران اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ امن مذاکرات قازقستان کے شہر ’آستانہ‘ میں ہوں گے۔
روس اور ترکی بشارالاسد مخالف گروپوں کے اہم حامی ہیں، مگر انہوں نے ہی جنگ بندی میں ثالث کا کردار ادا کیا اور ان دونوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔