تم ایک چلغوزہ ہو
تم ایک چلغوزہ ہو!
یقین نہیں آتا؟
چلو ذرا آنکھیں بند کرو۔ ڈرو نہیں، آنکھیں بند کرو اور غور کرو، تم میں اور ایک چلغوزے میں کتنی قدریں مشترک ہیں۔
تصور کرو کہ تم ایک چھلکے والا چلغوزہ ہو، بھورے رنگ کا، بے شکل، جس کے کوئی خدوخال نہیں، نہ آنکھیں ہیں نہ کان اور نہ زبان۔
کیا تمہیں خود میں اور ایک چلغوزے میں مماثلت نہیں نظر آتی؟
اگر غور کرو تو ایک لمبی فہرست ہے۔
دیکھو اس چھلکے والے چلغوزے کو۔ نہ یہ دیکھ سکتا ہے، نہ سن سکتا ہے اور نہ بول سکتا ہے۔ اس کا کوئی چہرہ نہیں، کوئی پہچان نہیں، جب ہی تو سارے چلغوزے ایک جیسے لگتے ہیں۔ ویسے اگر بغیر چھلکے والا چلغوزہ ہو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا، یہ بھی آنکھ کان زبان نہیں رکھتا۔
تم بھی تو ایسی ہی ہو، نہ تمہیں دنیا دیکھنے کی اجازت ہے، نہ کچھ سننے کی اور نہ ہی اپنے لیے کچھ کہنے کی۔ تمہارا کام ہے اپنے خول میں قید رہنا، بنا کسی پہچان کسی نام کے، جو نام جو پہچان جو مقام ہم تمہیں دیں گے، بس وہی تمہارا مقدر ہے۔
تم یا تو اچھا والا چلغوزہ ہو سکتی ہو یا پھر سڑا ہوا چلغوزہ یا آدھا اچھا یا آدھا خراب۔ اگرچہ یہ ہمارے طے شدہ معیار ہیں لیکن تمہیں انہی کے حساب سے جینا ہے۔ تمہاری یہی پہچان ہے، اس سے زیادہ نہ مانگو کیوں کی ہماری جھوٹی انا اس کی اجازت نہیں دیتی۔
کیا تم پر ہمارا یہ احسان کم ہے کہ تمہیں ٹافی، کینڈی اور لولی پاپ سے اٹھا کر چلغوزے جیسے مہنگے ڈرائی فروٹ کا درجہ دے دیا؟ اب تمہارا فرض بنتا ہے کہ تم اپنے چھلکے میں رہو اور مزید اگر کسی نیک پارسا "انسان" کا دل مطمئن نہیں ہوا، تو وہ تمہیں کسی مرتبان یا بوری میں بھی بند کر کے رکھ سکتا ہے، یا زمین کے اندر بھی دفن کرسکتا ہے، لیکن تم نے اف تک نہیں کرنا۔
ہم چاہتے ہیں کہ تم بے خبر رہو۔
تم بے خبر رہو اپنے صلاحیتوں سے، اپنی طاقت سے، اپنے حق سے۔ اسی لیے بار بار تمہیں یہ باور کرواتے ہیں کہ تم ناقص العقل ہو، اپنے لیے اچھے برے کا شعور نہیں رکھتیں، ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور اور لاچار ہو، چناچہ تمہیں ہر پل ہم سے محفوظ رہنے کے لیے ہمارے ہی سہارے کی ضرورت ہے۔
ہم نہیں چاہتے کہ تمہارا شعور بیدار ہو، تم معاشرے میں آزادانہ بنا کسی خوف اور جھجھک کے گھومو۔ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرو۔ تم ہر اس انسان کا گریبان پکڑو جو تمہیں کسی بھی طرح ہراساں کرے۔
ہم نہیں چاہتے کہ معاشرہ تمہارا کسی طرح بھی احسان مند ہو، کیوں کہ اس طرح تمہاری حیثیت اور درجے میں اضافہ ہوگا۔ یہی سب تو ہم نہیں چاہتے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ تم اور تم سے وابستہ جتنے لوگ ہیں، وہ بھی بے خبر رہیں اور تمہیں کبھی ایسے مقام پر نہ پہنچنے دیں جہاں تمہاری کوئی پہچان بننے کا ذرا بھی امکان ہو۔ ہمارے عظیم روشن خیال مصلحین بھی تو یہی چاہتے تھے کہ تم پر جدیدیت کا "منحوس" سایہ نہ پڑے۔ آج سو سال بعد بھی ہم ان کے سکھائے سبق سے نہیں بھٹکے۔
اسی لیے ہم نے تمہارے گرد ایک طلسماتی دنیا بنا ڈالی ہے اور اس میں تمہیں ماں، بہن، بیٹی، بیوی جیسے مختلف کردار دے رکھے ہیں۔ یہی کردار معاشرے میں تمہاری حیثیت کا تعین کرتے ہیں۔ باقی رہا انسان کا کردار؟ تو پگلی انسان تو ہم ہیں۔ تم تو محض چلغوزہ ہو جسے ہم چھلکے میں رکھنا چاہتے ہیں۔
تمہیں اس طلسماتی دنیا میں ہماری منشا کے مطابق چھلکے کے اندر اور ہمارا تابع رہنا ہے۔ یہی خانگی خوشی ہی تمہاری زندگی کا نصب العین ہونا چاہیے، باقی چار دیواری سے باہر دنیا میں کیا ہو رہا ہے، وہ سب ہم پر چھوڑ دو، اس سے تمہیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ چھلکے سے آگے تمہارے وجود کا اور کوئی مقصد نہیں۔
اسی لیے ہم تمہیں بار بار تمہاری حیثیت کا احساس دلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار تمہیں جتلاتے ہیں کہ تم محض ہماری ملکیت ہو، ایک شے ہو، ایک چلتی کرنسی، جس کا ہم جب چاہیں سودا کرسکتے ہیں، چاہے تمہارے عیوض نیا چلغوزہ خرید لیں۔ چاہیں تو اپنے گناہوں کے عیوض تمہارا سودا کر ڈالیں۔ خاندانی جھگڑوں، قرضوں کی ادائیگی یا وارث جننے کے لیے تم سے بہتر ذریعہ تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
جان لو کہ یہ ہمارا حق ہے!
پس یہ ثابت ہوا کہ تم ایک چلغوزہ ہو، اور ہماری بقا کے لیے تمہارا چھلکے میں رہنا ضروری ہے۔
تبصرے (12) بند ہیں