’شادی کا وعدہ پورا نہ ہونے پر نائلہ نے خودکشی کی‘
حیدر آباد: نئے سال کے پہلے دن سندھ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مبینہ طور پر خودکشی کرنے والی طالبہ سے متعلق پولیس نے اپنی ابتدائی تفتیش کے بعد کہا ہے کہ لڑکی نے شادی کا جھوٹا وعدہ پورا نہ ہونے پر دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کی۔
طالبہ کے گھر والوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے واقعے کو خودکشی قرار دینے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) حیدر آباد خادم حسین رند اور ایس ایس پی جامشورو نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ نائلہ رند خودکشی کیس میں سندھ یونیورسٹی کے سابق طالب علم انیس خاصخیلی کو گرفتار کیا گیا۔
خادم حسین رند کے مطابق انیس کو نائلہ کے موبائل سے حاصل ہونے والی معلومات کے بعد گرفتار کیا گیا، انیس اور نائلہ کے درمیان 3 ماہ قبل سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک پر رابطہ ہوا، جو بعد ازاں موبائل فون پر رابطے اور محبت میں تبدیل ہوا۔
خادم حسین رند نے کہا کہ انیس خاصخیلی نجی اسکول میں استاد ہے، اس نے 2008 میں سندھ یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کیا تھا، انیس نے نائلہ سے شادی کا جھوٹا وعدہ کیا تھا، جو پورا نہ ہونے پر طالبہ نے خودکشی کی۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ یونیورسٹی: طالبہ کی مبینہ خودکشی
انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ انیس کی جانب سے شادی کا وعدہ پورا کیوں نہیں کیا گیا۔
ڈی آئی جی حیدر آباد کا مزید کہنا تھا کہ انیس کے موبائل ڈیٹا کے مطابق اس کے 30 لڑکیوں کے ساتھ روابط تھے جبکہ اس کے موبائل سے نائلہ رند سمیت دیگر لڑکیوں کی قابل اعتراض تصاویر بھی ملی ہیں۔
خیال رہے کہ جامشورو پولیس نے گزشتہ روز شہید بےنظیر بھٹو یونیورسٹی نواب شاہ کے رجسٹرار غلام رسول خاصخیلی کی سعید آباد میں موجود رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر انیس خاصخیلی کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس کی جانب سے معاملے کو ایک بار پھر براہ راست خودکشی کا واقعہ قرار دینے پر سول سوسائٹی کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، جبکہ نائلہ رند کے اہل خانہ نے معاملے کے بعد اپنے زیادہ تر موبائل فون نمبرز بند کردیئے ہیں۔
وڈیو دیکھیں: طالبہ کی مبینہ خودکشی سے متعلق اہم انکشاف
ذرائع کے مطابق انیس اور نائلہ کے درمیان خودکشی سے قبل 24 منٹ کی طویل گفتگو ہوئی اور دونوں کے درمیان 350 موبائل میسجز کا بھی تبادلہ ہوا، پولیس نے نائلہ رند کے موبائل کا ڈیلیٹ کیا گیا ڈیٹا بھی حاصل کرکے تفتیش کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔
نائلہ رند کی خودکشی کو 5 دن گزر جانے کے باوجود تاحال واقعے کا مقدمہ درج نہیں کیا جاسکا جبکہ خودکشی کے واقعے کے بعد سندھ یونیورسٹی کی طالبات میں خوف پایا جاتا ہے۔
دوسری جانب سندھ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تشکیل دی گئی ہراساں کمیٹی کئی ماہ سے غیر فعال ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
کمشنر حیدر آباد قاضی شاہد پرویز نے صوبے کی اہم ترین یونیورسٹی میں ہراساں کمیٹی کے غیر فعال ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس یونیورسٹی میں 9 ہزار طالبات زیر تعلیم ہوں وہاں اس کمیٹی کا غیر فعال ہونا افسوسناک ہے۔
خیال رہے کہ نائلہ رند نے یکم جنوری کو یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مبینہ طور پر خودکشی کرلی تھی، جس پر نائلہ کے گھر والوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
نائلہ رند کے گھر والوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ نے ازخود نائلہ کی ہلاکت کو خودکشی قرار دیا، جو ان کے ساتھ ناانصافی ہے۔