زخمی فلسطینی کو قتل کرنے والا اسرائیلی فوجی مجرم قرار
تل ابیب: زخمی فلسطینی شہری کو سر میں گولی مار کر قتل کرنے والے اسرائیلی فوجی کو 'قتلِ غیر عمد' کا مجرم قرار دے دیا گیا۔
امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل کی فوجی عدالت نے سارجنٹ ایلور آذاریا کو فلسطینی نوجوان کے غیر ارادی قتل کا مجرم قرار دیا اور آئندہ چند ہفتوں میں اسے سزا سنائے جانے کا امکان ہے۔
اسرائیلی تاریخ میں ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ فلسطینی شہری کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنے والے کسی فوجی پر مقدمہ چلایا گیا ہو اور اسے سزا بھی سنائی گئی ہو۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک فلسطینی نابالغ ہلاک
یہ واقعہ گزشتہ برس مارچ میں پیش آیا تھا جب ایک مبینہ طور پر ایک فلسطینی حملہ آور 20 سالہ عبدالفتاح الشریف نے مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں ایک فوجی پر چاقو حملہ کردیا تھا اور جوابی کارروائی میں وہ زخمی ہوگیا تھا۔
شریف زخمی حالت میں زمین پر گرا ہوا تھا اور غیر مسلح تھا پھر بھی آذاریا نے اس کے سر پر گولی ماردی اور وہ وہیں دم توڑ گیا۔
آذاریا کی جانب سے شریف کو گولی مارنے کا منظر کسی نے موبائل فون کے ذریعے ریکارڈ کرلیا تھا جسے بعد میں ہزاروں لوگوں نے دیکھا۔
اس واقعے کے بعد آذاریا کا کورٹ مارشل کردیا گیا تھا اور گزشتہ 9 ماہ سے ملٹری کورٹ میں اس کے خلاف مقدمہ چل رہا تھا۔
معافی کا مطالبہ
مقدمے کے دوران اسرائیلی قوم آذاریا کے معاملے پر منقسم رہی، بعض حلقے فوجی سارجنٹ کے خلاف مقدمے کی حمایت کرتے رہے جبکہ بعض حلقے اس کے خلاف بھی تھے۔
آذاریا کو مجرم قرار دیے جانے کے فوراً بعد اسرائیلی کی نمایاں سیاسی جماعتوں نے اس کی معافی کا مطالبہ شروع کردیا۔
مزید پڑھیں: انتہا پسند یہودیوں نے 18 ماہ کا فلسطینی بچہ زندہ جلادیا
آذاریا کے اقدام کی ملٹری کمانڈرز نے شدید مذمت کی تھی تاہم سیاسی جماعتیں اس کے حق میں کھڑی رہی تھیں۔
آرمی کے میڈیکل یونٹ سے تعلق رکھنے والے سارجنٹ آذاریا کے خلاف مقدمے کی سماعت تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہے اور اس دوران تین رکنی پینل کی سربراہی کرنے والی جج کرنل مایا ہیلر نے آذاریا کے وکیل کی جانب سے پیش کی جانے والی صفائی کو مسترد کردیا۔
انہوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آذاریا کے اس موقف میں کوئی وزن نہیں کہ فلسطینی شخص پہلے ہی مر چکا تھا یا اس نے اس لیے گولی چلائی کیوں کہ وہ جان کے لیے خطرہ تھا۔
جج نے کہا کہ 'آذاریا کے دلائل قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، اس نے محض اس لیے قتل کیا کیوں کہ وہ سوچتا ہے کہ دہشت گردوں کو مر جانا چاہیے'۔
فیصلے کے خلاف اپیل
آذاریا کے وکلاء کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف کریں گے جبکہ اس کے اہل خانہ جو فیصلہ سنائے جانے کے وقت کمرہ عدالت میں موجود تھے اس بات کے لیے پر عزم ہیں کہ آذاریا بری ہوجائے گا۔
جب فیصلہ سنایا گیا تو آذاریا کے اہل خانہ نے طنز میں تالیاں بجانا شروع کردیں اور 'ہمارا ہیرو ہمارا ہیرو' کے نعرے لگانے لگے۔
دوران سماعت آذاریا نے موقف اپنایا تھا کہ اس نے فلسطینی نوجوان پر اس لیے فائرنگ کی کیوں کہ وہ اسے اپنے لیے خطرہ سمجھ رہا تھا اور اسے خدشہ تھا کہ وہ خود کش جیکٹ پہنا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل میں ہر نوجوان کے لیے فوجی سروس لازمی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں فوجیوں کے حوالے سے خاص ہمدردی پائی جاتی ہے کیوں کہ ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد فوج میں ہوتا ہے۔
تاہم آذاریا کے اس اقدام پر فوج کے اعلیٰ کمانڈرز بہت ناراض ہیں جن کا کہنا ہے کہ اس نے فوج کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔
فلسطینی نوجوان کے اہل خانہ مطمئن
اپنے بیٹے کے قاتل کے خلاف فیصلہ آنے پر شریف کے والد یوسری الشریف نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اسرائیلی عدالت کا کارنامہ قرار دیا۔
انہوں نے بتایا کہ 'وہ عدالتی کارروائی ٹی وی پر براہ راست دیکھ رہے تھے اور اس دوران اتنی ٹینشن میں تھے کہ سگریٹ کے دو پیکٹ پھونک دیے'۔
شریف کی والدہ سمیت متعدد افراد نے الخلیل میں ایک ریلی بھی نکالی جس میں لوگوں نے شریف کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔
دوسری جانب اسرائیلی فوجی کو مجرم قرار دیے جانے کے بعد انتہا پسند یہودیوں نے عدالت کے باہر احتجاج کیا اور آذاریا کو معافی دینے کا مطالبہ کیا۔
تبصرے (2) بند ہیں