• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

سی پیک سے ہمیں کتنے فوائد حاصل ہوں گے؟

شائع January 12, 2017 اپ ڈیٹ January 14, 2017
لکھاری سابق گورنر اسٹیٹ بینک، اور ووڈرو ولسن سینٹر واشنگٹن ڈی سی میں پبلک پالیسی فیلو ہیں۔
لکھاری سابق گورنر اسٹیٹ بینک، اور ووڈرو ولسن سینٹر واشنگٹن ڈی سی میں پبلک پالیسی فیلو ہیں۔

ایسا ملک جہاں منفیت اور عدم اعتمادی کا دور دورہ ہو، نقاد اور حوصلہ شکن لوگ قابل احترام ہوں، اور سوشل میڈیا پر جذباتی بیانات اور من گھڑت کہانیاں گردش کر رہی ہوں، ایسے میں قومی مسائل پر غیر جانبدارانہ تجزیہ پیش کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔

جب سے چین نے سی پیک کا اعلان کیا ہے تب سے لے کر زیادہ سے زیادہ وقت اور طاقت اس میں نقائص نکالنے، اس میں چھید کرنے اور مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی خدشات ظاہر کرنے میں صرف کی جا رہی ہے۔

اگر اسی سرمایہ کاری کا اعلان کسی دوسرے ترقی پذیر ملک میں ہوا ہوتا تو وہاں کا قومی رد عمل یہ ہوتا کہ ہمیں معیشت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے لیے کون سے اقدامات کرنے چاہئیں؟ موجودہ صورتحال میں کون سی کمزوریوں اور کمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے؟ مگر اس قسم کی سوچ ہماری سرشت میں ہے ہی نہیں۔ یا تو ہم جشن منانے اور خود کو مبارکباد دینے کے موڈ میں نظر آتے ہیں یا پر زور مذمت اور غیر متوقع خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہتے ہیں۔

سی پیک کے خلاف تین اقسام کے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک یہ پورا منصوبہ صرف پنجاب کے لیے مختص ہے اور اس میں دیگر تین چھوٹے صوبے نظر انداز ہوں گے۔ علاقائی اور نسلی تعصب کو ہوا دے کر خدشات پیدا کیے جاتے ہیں کہ ان منصوبوں سے خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

دوسرا یہ کہ ملک بیرونی بھاری قرضوں کی زد میں آ جائے گا اور اخراجات کی وجہ سے پاکستان کو ایک بار پھر قرضہ لینے پڑے گا۔ 110 ارب ڈالرز کی کل رقم جیسے خوفناک اعداد و شمار بھی سنائی دے رہیں ہیں۔

تیسرا، کچھ بلوچ نوجوانوں کا ماننا ہے کہ وہ اپنے ہی صوبے میں اقلیت بن جائیں گے۔ اس تشویش کی بنیادی وجہ ممکنہ معاشی فائدوں کے بجائے بے اعتمادی بنتی ہے۔

حکومت سی پیک کے حوالے سے سرمائے کے اسٹرکچر، سرمایہ کاری کے ذرائع کے متعلق تفصیل، منصوبے کے اسپانسرز کے بارے میں معلومات کو عوامی سطح پر نہیں لائی ہے، چنانچہ معاملات سلجھ نہیں پائے ہیں اور کنفیوژن اپنی جگہ موجود ہے۔

چند تحفظات دور کرنے کی غرض سے یہ مضمون منصوبہ بندی کمیشن اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کو تجویز دیتا ہے کہ سی پیک منصوبوں سے ہونے والے مجموعی فائدوں کا اندازہ لگانے اور ان کی مانیٹرنگ کے لیے اخراجات و فوائد کے تجزیے (cost-benefit analysis) کا مؤثر فریم ورک استعمال کیا جائے۔

فوائد

فوائد تین اقسام کے ہو سکتے ہیں.

1: بلاواسطہ فوائد، جن کا تخمینہ توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں سالانہ بنیادوں پر ہونے والی ترقی یعنی گروس ویلیو ایڈڈ میں اضافے کے ذریعے لگایا جاسکتا ہے۔

بالفرض توانائی کے شعبے میں تبدیلی کی شرح 1 سے زائد ہو، تو توانائی کی پیداوار اور استعمال میں دو فیصد اضافہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کو موجودہ سطح سے دو فیصد بڑھا دے گا۔

2: بالواسطہ فوائد کا اندازہ مصنوعات اور خدمات کی بلاواسطہ طلب کے نتیجے میں ہونے والی سرگرمیوں کے متعدد اثرات سے لگایا جاسکتا ہے۔

3: سی پیک کے تحت سڑکوں کی تعمیر اور توانائی کی قلت ختم ہونے سے چند اقتصادی سرگرمیاں قابل عمل ہوسکتی ہیں اور اس طرح متعلقہ علاقوں سے ہنرمند لیبر کی نقل مکانی بھی کم کی جاسکتی ہے۔

اخراجات

اخراجات چار اقسام کے ہو سکتے ہیں.

1: بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم، اور سڑکوں کی تعمیر پر سرمایہ کاری کے بلاواسطہ اخراجات؛

2: بالواسطہ اخراجات: بڑے پیمانے پر ہونے والی سرمایہ کاری کی وجہ سے اقساط میں اضافہ ہوتا ہے، اور چند مصنوعات اور خدمات کی مقامی قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب منصوبے تکمیل کو پہنچیں گے تو اقساط میں بھی کمی واقع ہوتی جائے گی۔

3: ناگزیر اضافی اخراجات: ملکی مصنوعات میں مطلوبہ معیار اور خصوصیات نہ ہونے کی وجہ سے کمی کو پورا کرنے کے لیے درآمدات کرنی پڑیں گی۔

4: قابل گزیر اخراجات: مناسب منصوبہ بندی، تال میل اور بہتر انتظامات سے زیادہ لاگت سے حاصل ہونے والے فوائد معیار برقرار رکھتے ہوئے کم لاگت کے ساتھ حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

چنانچہ خالص فوائد کا اندازہ مجموعی فوائد میں سے مجموعی اخراجات منہا کر کے لگایا جا سکتا ہے. یہ حساب کتاب اتنا سیدھا نہیں ہوتا، اور اس میں کئی نظریاتی، عملی، اور پیمائش کی مشکلات موجود ہوتی ہیں.

سب سے زیادہ مشکل حصہ آسانی سے قابلِ پیمائش بلاواسطہ فوائد یا اخراجات کو بالواسطہ فوائد و اخراجات کے اندازوں کے ساتھ ملا کر دیکھنا ہے، کیوں کہ بعد والی دو چیزیں چند مفروضوں پر مبنی ہوتی ہیں.

چنانچہ ماہرینِ معاشیات مانیٹرنگ کے تجربات کے ذریعے ایسا نیا ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں جو اصل اندازوں کی درستی میں کام آتا ہے. نتیجے میں آپ کے قابلِ گزیر اخراجات کم سے کم ہوتے جاتے ہیں، اور آپ کے بالواسطہ فوائد کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے، اور آخر کار آپ کے خالص فوائد میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے.

قابل گزیر اخراجات کے معاملے کو دو مثالوں کی مدد سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ اگر منصوبے کی تکمیل تک چینی مینیجرز اور باصلاحیت و تکنیکی اسٹاف کی یہاں پر تعیناتی جاری رہتی ہے تو فی مزدور سیکیورٹی، رہائش، نقل و حرکت اور بیرونِ ملک مقیم ہونے کی وجہ سے زیادہ اجرت کی وجہ سے پاکستانیوں کی ملازمت کے مقابلے زیادہ لاگت آئے گی۔

اگر حکومت اس دوران چینی تربیت کاروں کی نگرانی میں پاکستانیوں کو مناسب تربیت، انٹرن شپس، اور اسٹڈی اسائنمنٹس کے ذریعے ان پوزیشنز پر تعینات کرنے کے قبل از وقت منصوبے بنائے تو اس سے بھی اخراجات میں کمی اور خالص منافع میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ اس کام کے لیے ہم آہنگی، اہداف ترتیب دینا، مانیٹرنگ، اور ووکیشنل اور ٹیکنیکل ٹریننگ اداروں، نجی تربیتی اداروں اور صوبائی حکومتوں کے سپرد کر دینا درکار ہوگا۔

اسی طرح سے یہ بھی ایک امکانی اندازہ ہے کہ تعمیراتی مٹیریل کی ٹرانسپورٹ، درآمدات و برآمدات کی تجارت اور مصنوعات کے اضافی حجم کے لیے کم از کم 1 لاکھ اضافی ٹرکس درکار ہوں گے۔ اگر سی پیک منصوبوں کے دوران طلب اپنی انتہا پر پہنچنے سے قبل ذیلی شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی تو ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا اور اس طرح پاکستانی برآمدات کے لیے مسابقتی نقصان ہوگا۔ اس طرح سی پیک منصوبوں میں بھی اخراجات کی زیادتی ہوگی اور یوں بالواسطہ اخراجات بڑھ جائیں گے۔

لیکن اگر پاکستانی ٹرک ساز کمپنیوں کو ایک اندازے کے مطابق اعداد و شمار فراہم کیے جائیں تو وہ حصوں اور پرزوں کے سپلائرز کے ساتھ اپنی موجودہ صلاحیت کو وسعت دینے میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ صنعتوں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے اور زیادہ پیداوار سے اخراجات میں بچت کی وجہ سے زیادہ منافع کی مدد سے بالواسطہ فائدوں میں اضافہ ہوگا۔

جہاں تک فائدوں کا سوال ہے تو اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سی پیک سے ہونے والے سب سے زیادہ غیر معمولی اور دیرپا فائدے بلوچستان اور جنوبی خیبر پختونخواہ کے محرومی کے شکار اضلاع میں رہنے والے لوگوں کو حاصل ہوں۔

مصنوعات اور خدمات کی قومی مارکیٹ سے ان اضلاع کے ملاپ سے ان کی ماہی گیری، کان کنی، لائیواسٹاک، زراعت اور دیگر سرگرمیاں اقتصادی طور پر قابلِ عمل بنیں گی۔ یوں روزگار اور ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور اس طرح انہیں غربت سے نکلنے میں مدد ملے گی۔

سڑکیں اور بجلی وسیع تر ترقی کے اہم حصے ہیں کیوں کہ ان سے فصل کٹائی کے بعد ہونے والے نقصانات کم ہوتے ہیں، جلد خراب ہو جانے والی زرعی تجارتی اشیاء جلد از جلد مارکیٹ پہنچائی جا سکتی ہیں، مارکیٹوں تک ترسیل کے اخراجات کم ہو جاتے ہیں، اور یوں کسانوں کے پاس زیادہ پیسہ آتا ہے، اور اس کا استعمال وہ زرعی مصنوعات کو خریدنے میں کرسکتے ہیں، اور یوں ان اضلاع میں اقتصادی سرگرمیوں کا دوسرا راؤنڈ چل پڑے گا۔

حکومت محرومیوں کے شکار ان اضلاع کے لوگوں کے لیے فائدوں میں اضافے کے لیے سرگرم کردار ادا کر کے اور قابل گزیر اخراجات کو محدود کر کے کئی خدشات اور شکوک و شبہات ختم کر سکتی ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 3 جنوری 2017 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں

عشرت حسین

لکھاری سابق گورنر اسٹیٹ بینک، اور ووڈرو ولسن سینٹر واشنگٹن ڈی سی میں پبلک پالیسی فیلو ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Naveed Chaudhry Jan 12, 2017 10:58pm
Assalam O Alaikum, The first thing writer acknowledged is that Government or authorities have not made public many details of arrangements. How we understand the cost and benefits of the project. From economic point of view we may not calculate and comment on costs and benefits with out detailed information of the project. Trenchancy is the essence of government which is nil here. This may be best project for Pakistan but we do not know details.
Junaid Jan 13, 2017 06:41pm
Well written article. I like intellectual like you Dr. Eshrat Hussain.
Naveed Chaudhry Jan 13, 2017 10:49pm
@Naveed Chaudhry Assalam O Alaikum, The word trenchancy is typing error. Correct word is transparency .

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024