سانحہ صفورہ : مجرموں نے فوجی عدالت کا فیصلہ چیلنج کردیا
کراچی: صفورہ گوٹھ واقعے اور سبین محمود قتل کے الزام میں مختلف فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 5 ملزمان کی جانب سے فیصلے کو چیلنج کیے جانے کے بعد سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) نے وزارت دفاع اور داخلہ کے سیکریٹریز کو نوٹسز جاری کردیئے۔
خیال رہے کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے گذشتہ سال مئی میں اپنے ایک اعلان میں پانچ انتہائی اہم دہشت گردوں کی فوجی عدالتوں سے سزائے موت کے فیصلے کی تصدیق کی تھی جس میں طاہر منہاس، سعد عزیز، اسد الرحمٰن، محمد اظہر عشرت اور حافظ نثار احمد شامل تھے، ان پر الزام ہے کہ وہ صفورہ گوٹھ میں بس پر حملے اور سبین محمود کے قتل میں ملوث ہیں۔
فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے ان پانچوں مجرموں نے اپنے وکلاء کے ذریعے متعدد اپیلوں میں کہا ہے کہ ان کا ٹرائل ملیر میں قائم فوجی عدالتوں میں کیا گیا، جبکہ انھیں اس دوران کراچی کی سینٹرل جیل میں قید رکھا گیا تھا اور فوجی عدالت کے فیصلے کے بعد انھوں نے آرمی جنرل ہیڈ کوارٹرز کے جج ایڈووکیٹ جنرل، کورٹ آف اپیل کے رجسٹرار سے اپیل کی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تاہم اگست میں انھیں بتایا گیا کہ ان کی اپیلوں کو 25 جولائی 2016 کو مسترد کردیا گیا ہے اور ان کی سزائیں برقرار رکھی گئی ہیں۔
جس کے بعد انھوں نے سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی تاہم ان کی اپیل یہ کہہ کر مسترد کردی گئی کہ واقعہ اور ٹرائل سندھ ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
درخواست گرزاروں کے وکیل نے زور دیا کہ قانون کی نظر میں فوجی عدالتوں کی جانب سے دیئے جانے والے فیصلے عمل درآمد کے قابل نہیں، جیسا کہ ان کا ٹرائل تحفظ پاکستان ایکٹ 2014 کے تحت کیا گیا، جو کہ اب اپنی معیاد مکمل کرچکا ہے اور یہ بھی کہ درخواست گزاروں کا تعلق نہ تو کسی دہشت گرد تنظیم یا کسی ایسے گروپ سے ہے جو مذہب، فرقے یا اسلحہ کے استعمال کے ذریعے پاکستان کے خلاف جنگ کررہے ہیں، جس کے بارے میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے اپنا فیصلہ دیا تھا۔
انھوں نے زور دیا کہ درخواست گزراوں کا ٹرائل غیرقانونی تھا اور وکیل کی غیر موجودگی میں ایسا کرنا آئین کے آرٹیکل 10 کی خلاف ورزی ہے، جیسا کہ انھیں ٹرائل اور تفتیش کے دوران کال کوٹھی میں بھی رکھا گیا۔
ان کاکہنا تھا کہ وہ عدالت سے استدعا کرتے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں ہونے والے ٹرائل اور اس کا ریکارڈ طلب کیا جائے، جس کے تحت ان افراد کو مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔
جسٹس ظفر احمد راجپوت کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی اپیلیٹ بنچ نے وزارت دفاع اور داخلہ کے سیکریٹریز، وفاقی اور صوبائی وزارت قانون کے افسران کو اس حوالے سے 16 جنوری تک جواب جمع کرانے کی ہدایات جاری کیں۔
استغاثہ کے مطابق مئی 2015 میں کراچی کے علاقے صفورہ گوٹھ کے قریب بس پر ہونے والی فائرنگ سے 18 خواتین سمیت 47 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن کا تعلق اسماعیلی برادری سے تھا۔
اس کے علاوہ سوشل فورم ٹی ٹو ایف کی بانی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن سبین محمود کو اپریل 2015 میں بلوچستان کے حوالے سے منعقدہ ایک سمینار میں شرکت کے بعد ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔
پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ صفورہ گوٹھ واقعے میں ملوث تمام ملزمان کا تعلق القاعدہ سے ہے جو بعد میں اس سے علیحدہ ہو کر داعش کا حصہ بن گئے تھے۔
ان پانچ ملزمان کو سزائے موت دینے کے علاوہ فوجی عدالتوں نے 3 دیگر افراد کو بری کردیا تھا جن میں سابق فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے وائس چیئرمین سلطان قمر صدیقی، ان کے بھائی حسین قمر صدیقی اور ساجد نعیم شامل تھے ان تینوں پر الزام تھا کہ وہ ملزمان کے سہولت کار ہیں۔
یہ خبر 3 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی