بیرون ملک جانے کیلئے کسی سے مدد نہیں لی، پرویز مشرف
اسلام آباد: سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ پاکستان سے جانے کے لیے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سمیت کسی کی مدد نہیں لی۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'اِن فوکس' میں بات کرتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا کہ 'دو سال سے مجھ سے متعلق کیسز کی کارروائی سست روی کا شکار تھی اور پھر اس کے بعد عدلیہ اور حکومت کے فیصلوں کے پیش نظر میں نے اس معاملے کے پیچھے فوج کے ہونے کی بات کی تھی۔'
وطن واپسی کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے بیان پر پرویز مشرف نے کہا کہ 'میری یا میری قانونی ٹیم کی جانب سے چند ہفتوں میں میری وطن واپسی سے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔'
انہوں نے کہا کہ 'صحت کے مسائل کے علاوہ پاکستان کے سیاسی حالات کی وجہ سے واپس نہیں آرہا، جبکہ اگر پاکستان کے حق میں کچھ بہتر کرنے کا موقع ملا تو اس کے لیے مجھے چند بڑے فیصلے کرنے پڑیں گے۔'
21ویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والی فوجی عدالتوں کے حوالے سے سابق صدر کا کہنا تھا کہ 'اس عمل سے دہشت گردی کو کم کرنے میں مدد ملی، جبکہ فوج کا کراچی اور وزیرستان میں قیام امن کے لیے کردار قابل ستائش ہے۔'
مزید پڑھیں: مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی
ان کے مطابق 'دہشت گردی کے خلاف تمام صوبوں کو کام کرنا پڑے گا، جبکہ پنجاب فرقہ وارانہ دہشت گردی کا گڑھ ہے لہٰذا وہاں کارروائی ہونی چاہیے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں جو چیز بھی مددگار ہو اسے کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ پاکستان میں قانون بنانے سے زیادہ اس کے نفاذ کا مسئلہ ہے لہٰذا اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔'
آل پاکستان مسلم لیگ اور سیاست میں آنے کے حوالے سے سابق صدر نے کہا کہ 'میری جماعت ملک بھر میں فعال اور ضلعی سطح تک کام کر رہی ہے، لیکن ابھی جماعت اتنی مضبوط نہیں کہ انتخابات جیت سکے۔'
سابق صدر نے کہا کہ 'مجھے عدالت میں پیش ہونے کا کوئی مسئلہ نہیں اور میں تمام عدالتوں میں حاضر ہوچکا ہوں، لیکن مجھ پر تمام کیس سیاسی ہیں جنہیں ختم ہونا چاہیے۔'
یہ بھی پڑھیں: مشرف نے واپس آنے کا وعدہ کیا ہے: نثار
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے نجی چینل ’دنیا نیوز‘ کے پروگرام ’ٹونائٹ وِد کامران شاہد‘ میں گفتگو کرتے ہوئے پرویز مشرف کا کہنا تھا سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ان کی ’مدد‘ کی اور عدالتوں پر موجود دباؤ ختم کرنے کے لیے حکومت سے معاہدہ کیا، جس کے بعد انہیں بیرون ملک جانے دیا گیا۔
تاہم بعد ازاں 'چینل 32' سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بیرون ملک جانے کے لیے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے کبھی مدد کی درخواست نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ ’بیرون ملک جانے کے لیے کسی نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے کسی سے رابطہ کیا، راحیل شریف نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی میں نے ان سے کوئی درخواست کی، جبکہ دنیا نیوز سے ان کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔‘
مزید پڑھیں: راحیل شریف سے کبھی مدد کی درخواست نہیں کی،مشرف
رواں سال مارچ میں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای ایل سی) سے نکالنے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کا حکم سنایا تھا جس کے خلاف وفاقی حکومت نے اپیل دائر کی تھی۔
بعد ازاں وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پریس کانفرنس میں پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پرویز مشرف نے مقدمات میں پیش ہونے کا وعدہ کیا ہے۔
اس کے بعد عدالت کی جانب سے مختلف کیسوں میں پیش نہ ہونے پر سابق صدر کی جائیدادیں ضبط کرنے کے احکامات جاری کیے گئے، لیکن ان کی جائیداد کا بڑا حصہ ضبط نہیں کیا جاسکا۔
یہ بھی پڑھیں: 'پرویز مشرف کی تمام جائیدادیں ضبط نہیں ہوسکتیں'
وزارت داخلہ کی جانب سے پرویز مشرف کی جائیداد سے متعلق خصوصی عدالت میں جمع کرائے گئے جواب کے مطابق ان کی 7 غیر منقولہ جائیدادیں اور 9 بینک اکاؤنٹس ہیں۔
ان غیر منقولہ جائیدادوں میں آرمی ہاؤسنگ اسکیم کراچی، خیابان فیصل ڈی ایچ اے کراچی، ڈی ایچ اے اسلام آباد اور ڈی ایچ اے لاہور میں پلاٹس بھی شامل ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں