جب صدام حسین کو پھانسی دی گئی
10 سال قبل 2006 میں 30 دسمبر کو عراق کے سابق حکمران صدام حسین کو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں عید کے دن پھانسی پر لٹکایا گیا۔
عراقی عوام کے ذہنوں میں عیدالاضحیٰ کا وہ دن ہمیشہ تازہ رہے گا کیونکہ تختہ دار پر لٹکائے جانے کے مناظر پوری دنیا کو ٹی وی پر دکھائے گئے۔
صدام حسین نے 1979 میں عراق کی حکومت سنبھالی تھی جبکہ 2003 میں امریکا کی سربراہی میں اتحادی فوج کے حملوں کے دوران گرفتار ہوئے اور حکمرانی کے دوران قتل و غارت کے کئی واقعات کے الزام پر ایک عدالت نے انھیں پھانسی کی سزا سنائی، جس پر عمل درآمد بھی ہوا۔
صدام حسین کی پھانسی پر وہ لوگ جشن مناتے ہیں، جو ان کے شر سے متاثر ہوئے تھے جبکہ ان کے حامی عراق کے شہری اپنے ملک کے صدر کی اس ویڈیو کو دیکھ کر غمگین ہوتے ہیں، جس میں انھیں پھانسی میں لٹکاتے ہوئے دکھایا گیا۔
سی این این نے اس حوالے سے عراقی عوام کے تاثرات لیے، جن میں سے اکثر 2006 میں کم عمر تھے، انھوں نے 10 سال قبل صدام حسین کو پھانسی دیئے جانے والے دن کے حوالے سے اپنی یادیں اور احساسات بیان کیے۔
امینہ احمد
27 سالہ امینہ احمد کے مطابق جب صدام حسین کو پھانسی پر لٹکایا گیا، تو موصل وہ اپنے گھر پر موجود تھیں، تاہم ان کا ماننا ہے کہ سابق حکمران ایک مطلق العنان سربراہ تھے، لیکن ان کی سزا پورے عراقیوں کے لیے سزا تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں نوجوان تھی، مجھے سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن میں واقعی بہت غم ذدہ تھی، میں نے چلانا شروع کیا کیونکہ میں صدام حسین کے حق میں نہیں تھی، لیکن میں سمجتھی تھی کہ انھوں نے عراق کو پھانسی دی ہے'۔
امینہ احمد نے مزید کہا کہ 'میں جانتی ہوں کہ صدام حسین ایک آمر تھے، لیکن وہ عراق کی نمائندگی کرتے تھے، وہ عراق کے صدر تھے، جب دوسرے ممالک آئے اور صدام کی حکومت کو گرایا گیا، پھر انھیں پھانسی دے دی، اور آپ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ہوگیا'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ اسی طرح کے جذبات تھے، جب امریکی فوج بغداد میں آئی، جہاں صدام کا ایک بڑا مجسمہ تھا اور ایک فوجی نے اس کے چہرے کو امریکی جھنڈے سے چھپا دیا جبکہ ہم سب کی حالت ایسی تھی کہ یہ کون ہیں، جو مجسمے کو گرارہا ہے؟ ، یہ ہمارا ملک ہے اور ہمارا اپنا معاملہ ہے، کیونکہ ہم نے ان میں سے کسی کو آنے کے لیے نہیں کہا، میں جانتی ہوں کہ ہم ایک آمر کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن ہم نے کسی اور کو یہ کام نہیں دیا تھا کہ وہ آئے اور ہمارے ملک کو یہ نقصان پہنچائے۔
اپنی کیفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے ہم ایک شخص یعنی صدام حسین سے خوفزدہ تھے، اگر آپ اس کی اور اس کے اہل خانہ کی برائی نہیں کرتے تھے تو آپ محفوظ تھے، لیکن اس کے بعد مکمل اندھیرا ہے، صورت حال بہتر نہیں بلکہ بدتر ہو رہی ہے، میرا تعلق موصل سے ہے، وہاں اب کیا صورت حال ہے، سب کچھ تباہ ہو چکا ہے'۔
زید ردھا
ردھا، بغداد سے 160 کلومیٹر دور شیعہ اکثریتی علاقے دیوانیاہ میں رہتے ہیں، جب صدام کو پھانسی دی گئی تھی اس وقت ان کی عمر صرف 13 سال تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے یاد ہے کہ جب میں صبح اٹھا تو میرے والد عربی ٹی وی چینل دیکھ تھے اور وہاں صدام حسین کی پھانسی کے لمحات کو براہ راست دکھایا جارہا تھا، جس پر میں نے کہا کہ کیا وہ دن بالآخر آگیا تھا اور کوئی شخص اس پر یقین نہیں کررہا تھا کہ یہ دن بھی آئے گا'۔
مجھے یاد ہے کہ یہ خاص طور پر میرے والد اور میرے اہل خانہ کے لیے ایک خاص دن تھا کیونکہ ہم نے بہت مشکلات دیکھی تھیں، میں نہیں جانتا کہ اس کو کیسے بیان کروں، لیکن لوگوں کا جوش وخروش حد سے زیادہ تھا'۔
ہرکوئی گلی میں تھا، تمام لوگ جشن مناتے ہوئے فائرنگ کر رہے تھے جبکہ ہر کوئی خوش تھا جیسا کہ یہ کوئی خاص دن تھا'۔
میرے والد نے کہا کہ وہ چاہتے تھے کہ یہ دن دیکھنے کو ملے اور وہ دن 35 سال کی عمر میں وہ دیکھ رہے تھے۔
میرے والد اور اہل خانہ سمجھتے تھے کہ صدام حسین کو اپنے جرائم کی پوری سزا نہیں ملی، کیونکہ انھوں نے نہ صرف عراق بلکہ ہمسایہ ممالک میں بھی بہت جرائم کیے تھے۔
ہماری پرائمری اسکول کی کتاب کے پہلے صفحے پر صدام کے چہرے کی تصویر تھی جبکہ ہر 10 سے 15 صفحے کے بعد صدام حسین کا قول ہوتا تھا اور جب ان کی حکمرانی ختم ہوئی تو میں خوش ہوا اور کہا کہ مجھے ان کا چہرہ کبھی نہیں دیکھنا ہوگا۔
نعیم الزبیدی
41 سالہ نعیم الزبیدی ایک ڈاکٹر اور نجف کی کوفا یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں جبکہ جب صدام کو پھانسی دی گئی تو ان کی عمر 31 سال تھی۔
انھوں نے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ 'اس دن چھٹی تھی اور میں گھر پر تھا اور یہاں نجف میں بہت زیادہ جشن منایا جا رہا تھا، جس کی آپ توقع کر سکتے ہیں کیونکہ یہ شہر صدام کے سخت مظالم جھیلنے والے شہروں میں سے ایک ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا تاثر تھا لیکن بعد میں جب پھانسی کی پہلی ویڈیو ٹی وی چلی تو میرے لیے مایوس کن تھا۔
ڈاکٹر نعیم الزبیدی نے بتایاکہ صدام حسین مجرم تھا، وہ موت کا حق دار بھی تھا لیکن اس کی سزاء انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے تھے، اس طرح نہیں جیسے اس دن عراق کے ٹی وی پر دکھایا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم عراق کے عام لوگوں میں سے تھے اور کوئی سیاسی تعلق نہیں تھا لیکن ہمیں بھی صدام کے ظلم کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ہمارے گھر میں بھی چیخ وپکار تھی اور آنسو تھے۔
تبصرے (2) بند ہیں