ڈپریشن 'اداسی' نہیں بلکہ بیماری ہے
ہر انسان کو اپنی زندگی میں مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی وہ مرحلے اس قدر آسان ہوتے ہیں کہ زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھرے رہتے ہیں اور کبھی وہ مرحلے اس قدر مشکل ہو جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی سے بیزاری محسوس کرتا ہے۔
کچھ افراد اپنے اندر موجود صلاحیتوں اور اپنی ہمت سے حوصلہ پیدا کرتے ہیں اور مشکل مراحل عبور کر کے زندگی کا تسلسل بہار و خزاں میں جاری رکھتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اندر موجود ہمت اور صلاحیتوں کو پہچان نہیں پاتے اور تمام مسائل کا آخری حل زندگی کا خاتمہ سمجھتے ہیں۔
خودکشی کا براہِ راست تعلق ڈپریشن سے ہی ہوتا ہے بس اس ڈپریشن کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض افراد بہت معمولی مسائل پر بھی ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور دیگر افراد آخری حد تک ممکنہ کوششوں کے بعد مثبت نتائج نا آنے کی صورت میں شدید مایوس ہو جاتے ہیں۔
پڑھیے: خودکشی باعثِ بدنامی کیوں؟
زیادہ تر خودکشی کی وجوہات میں طویل عرصے تک بیروزگاری، نا قابلِ علاج بیماری،احساسِ کمتری، کیرئر کا زوال، ہتکِ عزت، من پسن شادی کا نہ ہونا، بیوفائی یا مسلسل ناکامی شامل ہیں۔
ڈپریشن زدہ شخص کی سوچ ایک عام آدمی کی سوچ کے برعکس ہوتی ہے۔ شدید مایوسی کی وجہ سے وہ خوشگوار زندگی کو تصور کرنے کا احساس بھی کھو چکا ہوتا ہے۔
ڈپریشن بھی ایک بیماری کی ہی طرح ہے اور قابل علاج بھی مگر ایسے افراد میں یہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے کہ وہ ایک قابلِ علاج حالت کا شکار ہیں اور خود کشی کو راہِ نجات سمجھتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے جہاں ہر 13 منٹ بعد خودکشی سے ایک موت واقع ہوتی ہے۔ امریکا میں ہر سال تقریباً تیس ہزار افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں اور پندرہ سے 45 سال کے افراد کی موت کی تیسری بڑی وجہ خودکشی ہے۔
پڑھیے: دو بچوں کی 'خود کشی' کا ذمہ دار کون؟
خودکشی جیسا بھیانک عمل صرف عام افراد کی سوچ ہی نہیں بلکہ مشہور افراد جن میں بڑے کامیاب سلیبرٹیز، کھلاڑی اور سیاست دان بھی شامل ہیں، خودکشی کے ذریعے اپنی زندگی کا خاتمہ کر چکے ہیں۔ مشہور امریکی آسکر ایوارڈ یافتہ کامیڈین روبن ولیم نے چھت سے لٹک کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ اسی طرح ہمیں لولی ووڈ سے بولی ووڈ ہستیوں کی مثالیں بھی مل جاتی ہیں جنہوں نے اپنی شہرت اور دولت کے باوجود خودکشی کی راہ چُن لی۔
ضرورت اس انتہائی اقدام کی روک تھام کی ہے۔ ایک فرد کا اپنی زندگی ختم کر لینا نہایت افسوس ناک اور تشویش ناک مسئلہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان کو لاحق ڈپریشن کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے اور ان کے مسائل کا حل بھی مختلف ہو مگر کچھ ایسے عوامل ضرور ہیں جن کی مدد سے شدید ڈپریشن کو ختم کیا جاسکتا ہے یا کسی حد تک کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلے تو تسلیم کریں کہ ڈپریشن ایک قابل علاج بیماری ہے۔ جس طرح مختلف جسمانی اعضا کے ماہر ڈاکٹرز ہوتے ہیں اسی طرح ڈپریشن کی بیماری کا تعلق ہمارے ذہن اور نفسیات سے ہے۔ کچھ لوگ اسے ایک بیماری تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور مایوسیوں اور ناامیدوں کے ہاتھوں مزید مشکل صورتحال میں گھرتے جاتے ہیں۔
ضرورت گھر کے افراد کی آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کی ہے۔ زیادہ تر پریشانیاں گھر سے ہی شروع ہوتی ہیں۔ اہل خانہ ایک دوسرے کو اعتماد میں لیں۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ رکھیں کہ وہ اپنا کوئی بھی مسئلہ بغیر ہچکچاہٹ کے بیان کر سکیں۔
پڑھیے: خودکشی کا رجحان: علامات پہچانیے
میاں، بیوی، بھائی اور بہن کے درمیان دوستی اور اعتماد کا رشتہ بڑھائیں۔ کوئی فرد باہر جتنا بھی پریشان ہو اگر گھر کا ماحول خوشگوار ہوگا تو منفی سوچ کو تقویت نہیں ملے گی۔
ڈپریشن کے شکار افراد اپنی پریشانی پر بات کریں۔ اپنے مسائل پر بات چیت کرنے سے ذہن سے کافی حد تک بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کی مایوسی کو نظر انداز نہ کریں۔ ممکنہ حد تک ذہنی تناؤ کے شکار لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔
جن لوگوں کو اپنے ذہن پر دباؤ محسوس ہو اگر وہ اپنا مسئلہ اپنے گھر کے فرد یا دوست سے شیئر نہیں کر سکتے تو کسی اچھے ماہر نفسیات کے پاس جائیں کیونکہ مسائل بیان کرنے سے کوئی نا کوئی حل ضرور نکلتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی ایک بدقسمتی رہی ہے کہ ماہر نفسیات یا ذہنی بیماری کا تذکرہ ہو تو لوگ فوراً محتاط ہو جاتے ہیں اور متعلقہ کلنک یا ڈاکٹرز کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس موجودہ دور میں جہاں ڈپریشن کی شرح دن بہ دن بڑھ رہی ہے ایسے میں ہمیں ایسی فرسودہ سوچ کو ختم کرنا ہوگا اور ماہرین نفسیات سے علاج کو ایک عام ٹریٹمنٹ کے طور پر لینا ہوگا۔
پڑھیے: میں نے ڈپریشن سے کیسے نمٹا؟
زندگی اللہ پاک کی امانت ہے۔ خودکشی کرنے والا چلا جاتا ہے لیکن اپنے پیچھے ہزار قسم کی کہانیاں چھوڑ جاتا ہے اور اس کا اثر اس کی پوری نسل پر پڑتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ خودکشی اور ڈپریشن جیسے موضوعات پر کھل کر بات کی جائے اور اس بارے میں آگاہی پھیلائی جائے۔
تبصرے (2) بند ہیں