صوبوں کے بجٹ

یہ اس بلاگ کا پہلا حصّہ ہے جس میں پنجاب اور سندھ کے صوبائی بجٹوں کا تجزیہ کیا گیا ہے
وفاقی حکومت کے بجٹ کے بعد، جو 12 جون کو پیش کیا گیا تھا، اب چاروں صوبوں نے بھی 14 - 2013 کیلئے اپنے اپنے صوبوں کے بجٹ پیش کر دئے ہیں-
اس بار چاروں صوبوں میں چار مختلف پارٹیوں کی حکومتیں قائم ہیں- پنجاب اورسندھ میں حسب سابق مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی کی حکومتیں قائم ہیں-
سندھ اور بلوچستان میں وزرائےاعلیٰ نے 14- 2013 کیلئے اپنی حکومتوں کے بجٹ پیش کئے-
چاروں صوبوں کے بجٹ میں جو بات مشترک تھی، وہ ہے بجٹ خسارہ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صوبائی حکومتیں اس بات کی خواہاں ہیں کہ ترقیاتی کاموں کو ترجیح دی جائے-
دوسرے یہ کہ چاروں صوبوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فی صد کا اضافہ تجویز کیا ہے- جبکہ وفاقی حکومت نے دس فی صد کا اضافہ تجویز کیا ہے اور وہ بھی ملازمین کی جانب سے احتجاج کے بعد-
تیسرے یہ کہ کسی بھی صوبے کی حکومت نے نہ تو زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس عائد کیا ہے اور نہ ہی ٹیکس کے ڈھانچے کے نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے- اس کے علاوہ ٹیکس کے دائرہ کو پھیلا کر، اس میں نئے ٹیکس دہندگان کو شامل کرنے کی کوئی نمایاں کوشش بھی نظر نہیں آتی-
ایک اور بات، جو مشترک نظر آتی ہے، وہ ہے غیر ترقیاتی مصارف میں کمی کرنے کے وعدے- یہ وعدے کس حد تک پورے کئے جا ئنگے یہ وقت ہی بتائیگا-
پنجاب
جہاں تک پنجاب کی صوبائی حکومت کے بجٹ کا تعلق ہے تو اسکی مجموعی رقم 6 .931 بلین روپیہ ہے، جوتینوں صوبوں کے مجموعی بجٹ سےکچھ ہی کم ہے- پنجاب کی صوبائی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے، وہ سابقہ دور کے بجٹ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے بلکہ اسی کی چھاپ نظر آتی ہے-
پنجاب نے ترقیاتی منصوبوں کے لئے 290 بلین روپیہ کی رقم مختص کی ہے جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں سو بلین زیادہ ہے- اس کا بڑا حصّہ توانائی اور سماجی بہبود کے منصوبوں پرصرف کیا جائیگا- تعلیم پر 4. 25 بلین روپے، صحت پر 3 . 18 بلین روپے، توانائی کے شعبے پر 5 . 20 بلین روپے، عورتوں کو بااختیار بنانے کے منصوبے پر 25 بلین روپے، جنوبی پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں پر13 بلین روپے صرف کئے جائینگے-
شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلز کیلئے کسانوں کو5 . 7 بلین روپے کی سبسڈیز دی جائینگی اور نئے سٹی انڈسٹریل زون کے قیام کیلئے 5 بلین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے- آمدنی کے وسائل کو بڑھانے کیلئے پنجاب کی حکومت نے دو سے لیکر چار کنال کی رہائشی املاک پر5 - 1 ملین روپے تک کا ٹیکس لگانے کا منصوبہ بنایا ہے-
اس کے علاوہ اگلے برس، زرعی ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے 2 . 2 بلین روپے کے اضافے کا منصوبہ ہے- اگرچہ اس اضافے کو قابل لحاظ نہیں کہا جاسکتا، لیکن باقی تینوں صوبوں میں تو زرعی ٹیکس میں اضافہ کرنے کی کوئی کوشش نظر بھی نہیں آتی-
یہ بھی تجویز پیش کی گئی ہے کہ پچاس ایکڑ سے زیادہ زمین کے مالکان کو نارمل انکم ٹیکس کی طرح ٹیکس ریٹرن داخل کرانے ہونگے، خواہ انھیں مالیاتی نقصان ہوا ہو اور انکی آمدنی ٹیکس کے دائرے میں نہ آتی ہو-
تاہم پنجاب کی حکومت، زرعی تعلیم کی جانب مناسب توجہ دے رہی ہے- چنانچہ ملتان یونیورسٹی کا منصوبہ اسی سال کے دوران مکمل کئے جانے کی توقع ہے- فیصل آباد یونیورسٹی کا ایک ذیلی کیمپس بور ےوالا میں قائم کرنے کا منصوبہ ہے- ملتان میں بھی آم کا ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کیا جائیگا- فیصل آباد میں واقع ایوب زرعی ریسرچ انسٹٹیوٹ کی ملازم خواتین اور کسانوں کیلئے ہاسٹل کی سہولتیں فراہم کی جائینگی نیزکارور(لیہ) میں تربیتی مرکز قائم کیا جائیگا- ان اقدامات کو خوش آئیند قرار دیا جا سکتا ہے-
سندھ
معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سندھ نے جہاں پیپلز پارٹی کا اقتدار قائم ہے، انتخابات میں اپنی ناکامیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا- اس بار بھی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پارٹی کے منتخب صوبائی اراکین (ایم پی ایز) کو ترقیاتی فنڈز دیے جائینگے جو اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں ترقیاتی پروگراموں کے ذمہ دارہونگے-
اس حکمت عملی کے نتیجے میں بدعنوانیوں کو راہ مل سکتی ہے- البتہ اپنے سابق اتحادی ایم کیو ایم کو خوش کرنے کیلئے کراچی سرکولر ریلوے کیلئے رقم مختص کی گئی ہے نیز تھر کوئلے کے پروجکٹ کیلئے 32 بلین روپے مختص کئے گئے ہیں-
مجموعی طور پر سندھ کے بجٹ پر یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ حکومت سندھ، ٹیکس کے نیٹ ورک کو پھیلانے کی خواہاں نظر نہیں آتی- گرچہ کچھ نئے سروسز ٹیکس تجویز کئے گئے ہیں، مثلا شادی ہال، بیوٹی پارلر اور ایونٹ مینجمنٹ کے شعبوں پرٹیکس عائد کرنے کا منصوبہ ہے لیکن آمدنی کے وسائل کو بڑھانے کیلئے یہ ناکافی ہے-
کہا یہ جاتا ہے کہ صوبہ سندھ میں اتنے امکانات ہیں کہ بجٹ خسارے کے بجائے، اضافی بجٹ پیش کیا جا سکتا تھا- مثلاً زرعی انکم ٹکس کے ذریعہ وسائل آمدنی میں قابل لحاظ اضافہ ممکن تھا- ماہرین کے اندازے کے مطابق، حکومت سندھ کو چاہئے تھا کہ وہ ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 5. 13 فی صد کا ہدف مقرر کرتی-
مثلاً انفرااسٹرکچر محصول کو بلا امتیاز وصول کرنے کی کوشش کی جا سکتی تھی- اس کے علاوہ سندھ میں آنے والے پٹرول اور پٹرولیم مصنوعات پر تاحال کوئی محصول نہیں لیا جاتا- افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اورکارگو کی چند اوراقسام بھی ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں- یہی حال ریئل اسٹیٹ کا ہے- مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت سندھ نے ٹیکس کے نظام میں اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہیں دی-
نوٹ: یہ اس بلاگ کا پہلا حصّہ تھا، خیبر پختوخوا اور بلوچستان پر بات اگلے حصّے میں ہوگی … جاری ہے ...
تبصرے (1) بند ہیں