• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

کچھ اِدھر اُدھر کی۔۔۔

شائع June 29, 2013

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن --.

چند روز قبل دوستوں کی ایک غیر رسمی محفل میں یہ بحث چل نکلی کہ سزائے موت درست ہے یا غلط؟ اس نشست میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے ایک قابلِ قدر جج بھی شریک تھے جن سے یہ میرا اولین تعارف تھا۔

کمرے میں ایک جانب ہارمونیم پڑا تھا جو شاید ایک دوست کے موسیقی سے لگاؤ کا عکاس تھا جس پر گرد کی دبیز تہہ جمی ہوئی تھی۔ موصوف جج صاحب کمرہ میں داخل ہوئے، ہارمونیم دیکھ کر ان کی آنکھوں میں پیدا ہونے والی چمک پر میری حیرانی فطری تھی۔

یہ مفروضہ قائم کر لیا گیا ہے کہ شعبۂ قانون سے منسلک لوگوں کا فنونِ لطیفہ سے کیا تعلق؟ لیکن موصوف نے نہ صرف ہارمونیم سے گرد جھاڑی بلکہ ایک بے سُری سی تان بھی چھیڑدی اور فرمانے لگے کہ ہارمونیم بجانے کا مزہ اس وقت آتا ہے جب اس پر گرد کا ایک ذرہ بھی نہ ہو۔

قصہ مختصر گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو میری رگِ "صحافت" پھڑک اٹھی۔ لیکن اس سے قبل کہ میں ان سے کوئی سوال کرتا، وہ خود ہی فرمانے لگے کہ وہ موت کی سزا کے خلاف ہیں۔

احباب حیرت سے چونک گئے لیکن چوں کہ یہ ہماری ان صاحب سے پہلی ملاقات تھی لہٰذا سب کی یہ خواہش تھی کہ اس موضوع پر ان سے تفصیل سے بات کی جائے۔ میں نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے پوچھا کہ وہ کیا وجہ ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کوئی فعال کردار ادا کرتی ہوئی نظر نہیں آتی؟

انہوں نے میری جانب حیرت سے دیکھا اور یہ تاثر دیا، جیسا کہ یہ ایک احمقانہ سوال ہو۔ لیکن جواب ضروردیا اور گواہوں کے منحرف ہونے اور ثبوتوں کی کمیابی کو جواز کے طور پر پیش کیا۔ کسی حد تک یہ نقطۂ نظر درست بھی تھا۔

بعد میں جب گفتگو کا رُخ موت کی سزا کے علمی و فکری پہلوؤں کی جانب گیا تو موصوف تلملانے لگے اور یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ وہ چار "جاہلوں" سے محوِ گفتگو ہیں (موصوف اور ان کے ایک دوست کے علاوہ ہم چار لوگ ہی کمرے میں تشریف فرما تھے)۔

ہم نے عرض کی؛

حضور! آپ نے فرمایا تھا کہ موت کی سزا درست نہیں ہے اور اب۔۔۔؟

لیکن میری بات مکمل بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ ان صاحب کے ساتھ آنے والے ان کے ایک دوست نے ماحول میں پیدا ہونے والی تلخی کو مزید بڑھاتے ہوئے کہا؛

"دیکھئے! میزبانی کے کچھ آداب ہوتے ہیں اور شاید آپ ان سے آشنا نہیں ہیں۔"

وضاحت کرنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ دوستوں نے خاموش کروا دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ جج صاحب کا ظاہری تاثر ایک "بھانڈ" (پنجاب میں شادی بیاہ پر مہمانوں کو تفریح مہیا کرتے ہیں) سے کچھ مختلف نہیں تھا۔

ان صاحب کے ساتھ گزرے چند لمحات نے پاکستان کے قانونی نظام میں موجود خامیوں کو واضح کر دیا کہ ایک اوسط ذہنی سطح کا ایسا شخص بھی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا سیشن جج بن سکتا ہے جو خود بھی قانون کے نظری و فکری مباحث کے حوالے سے کنفیوز ہے۔

ہوسکتا ہے کہ یہ تمام بحث لاحاصل رہی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بلاگ لکھنے کے لیے موضوعات کا انتخاب مسئلہ نہیں رہا۔ طویل عرصہ ڈان ڈاٹ کام سے غیر حاضری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ موضوع کے انتخاب میں شواری پیش آنے لگی تھی۔

اس کے علاوہ کچھ عام انتخابات اور پھر بجٹ تقریروں نے مصروف رکھا۔ سانحہ جوزف آباد کے بعد 295-C پر ایک ڈاکومنٹری پر کام شروع کیا جو ہنوز التوا کا شکار ہے۔

اسی دوران "صنفی توازن اور فیملی پالیسی" کے موضوع پر منعقدہ ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے سویڈن جانے کا اتفاق ہوا، جس کے باعث ہر ہفتے وعدہ کے باوجود بلاگ لکھنے میں تامل کرتا رہا۔

میرا یہ یقین پختہ ہوگیا تھا کہ دہشت گردی پر آخر کب تک نوحہ کناں رہا جاسکتا ہے؟

کراچی میں کھیلی جارہی خون کی ہولی بھی آنکھوں میں نمی لانے کا باعث نہیں بنتی۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ملنے والے مسخ شدہ لاشے، جن کے چہرے بھی پہچانے نہیں جاتے، کی ماؤں کے زخموں پر آخر کب تک مرہم رکھا جاسکتا ہے؟

یہ سب موضوع پرانے ہوچکے ہیں، جیسا کہ ایک قومی اخبار کے سینئر مدیر نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک کالم میں لکھا تھا؛

"خبریں کم پڑ گئی ہیں۔ سچ پوچھئے تو ختم ہوگئی ہیں۔ اخبارات میں جو چھپ رہا ہے، سب پرانا ہے۔ بس سرخیاں نئی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور سرخیوں میں بھی نیا پن آخر کتنی بار ڈالا جاسکتا ہے۔"

لیکن سویڈن سے واپسی پر یہ ادراک ہوا کہ لکھنے کے لیے بے تحاشا موضوعات موجود ہیں، گر قلم میں سیاہی موجود ہو۔ خاص طور پر بلاگ میں یہ آزادی حاصل ہوتی ہے کہ آپ ذاتی تجربات کو موضوع بناسکتے ہیں جو بہرحال انفرادی تجربات کا عکاس ہوتا ہے۔

میرا سائیکل خریدنے کا فیصلہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ بعض دوستوں نے حیرت سے پوچھا؛

"لگتا ہے سٹاک ہوم سے بس یہ سائیکل ہی لائے ہو۔ کچھ احباب میری معاشی حالت پر فکرمند ہوئے۔ بعض نے یہ طویل لیکچر گوش گزار کیا کہ "سائیکل چلانا میرے شایانِ شان نہیں"۔

پوچھا "آخر کیوں؟

جواب ملا، "اس سے آپکے سماجی رتبے پر فرق پڑتا ہے۔"

اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ میں شش و پنج میں مبتلا ہوں کہ کیا سائیکل لینے کا فیصلہ درست تھا یا غلط؟


ali zaef-80 علی ظیف صحافی اور پرجوش کہانی کار ہیں اور قلم کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتے ہیں۔

علی ظیف
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

shakir merani Jun 30, 2013 04:34am
dear ali ------is say behtar tha koi leetfa hi likh detay------------waqat ka zia kia aap nay ya blog likh kar aur ------mein nay parh kar---- sorry dont mind-----
mustafa Jun 30, 2013 10:04am
میرا خیال ہے یہ علی ظیف صاحب نے کچھ اہم مسئلوں پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے نہ صرف انسدادِ دہشت گردی کے ایک جج پر تنقید کی جو کہ دراصل پورے ادارے پر تنقید تھی اور حقیقت کچھ مختلف نہیں ہے۔ پھر انہوں نے لوگوں کے عمومی رویوں پر بات کی کہ کس طرح لوگ آپ کے ذاتی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے یہں۔ مجھے اس بلاگ میں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی جس سے وقت کا ضیاع ہوتا ہو بلکہ یہ ایک مثبت تحریر تھی جس میں مصنف نے اپنے ذاتی تجربات بیان کیے ہیں۔
Jamal Ali Nasir Jun 30, 2013 05:41pm
mae Mustafa sb ki raye se mutfiq hun k yeh aik musbat tehreer hai ....bohut khoob Ali Zaif

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024