سانحہ کوئٹہ رپورٹ: ’صرف 5 جگہ چوہدری نثار کا نام لیا گیا‘
اسلام آباد: سماجی کارکن جبران ناصر نے کہا ہے کہ سول ہسپتال کوئٹہ پر خود کش حملے کے حوالے سےعدالتی کمیشن کی رپورٹ میں صرف وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار پر سوال نہیں اٹھائے، بلکہ اس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومتی اقدامات کے ساتھ دو سال قبل بننے والے قومی ایکشن پلان کی کارکردگی کابھی جائزہ لیا گیا ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے جبران ناصر کا کہنا تھا کہ 80 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں صرف 5 جگہ چوہدری نثار کا نام لیا گیا، لہذا میڈیا اور سیاستدانوں کو چاہیئے کہ وہ صرف چوہدری نثار کو تنقید کا نشانہ نہ بنائیں جس سے یہ ذاتیات کا تاثر پیدا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ چوہدری نثار ایک سال قبل بھی لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کے معاملے پر غلط بیانی کر چکے ہیں، اسی طرح وہ پریس کانفرنسز، پارلیمنٹ میں سوال و جواب اور اپنی پارٹی کا اثر و رسوخ استعمال کر کے اس معاملے سے نکل جائیں گے۔
مزید پڑھیں :سانحہ کوئٹہ: 'وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ نے غلط بیانی کی'
انھوں نے کہا کہ رپورٹ میں موجودہ نظام کی کئی خامیوں کو سامنے لایا گیا، جس میں فرانزک (ثبوت) اکھٹا کرنے کی سہولیات نہ ہونے، دہشت گردی کے واقعے کے بعد پولیس کی ترجیحات، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی تربیت کا نظام اور وزارت مذہبی امور کے پاس مدارس کی مکمل معلومات نہ ہونے کی بات کی گئی ہے۔
سماجی کارکن کے مطابق اس کے علاوہ ملک میں میڈیا کی جانب سے جہادی تنظیموں کی رپورٹ اور پریس ریلیز کو چیک کرنے کا واضح نظام موجود نہیں اور فوج کے ماتحت ایف سی کے بلوچستان میں کردار پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔
جبران ناصر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج نے پوری پارلیمنٹ کا کام کرکے دے دیا، پارلیمنٹ اس وقت ذاتیات کی سیاست سے نکل کر رپورٹ کے امور کے نفاذ پر کام کرے۔
یہ بھی پڑھیں:’سانحہ کوئٹہ رپورٹ کے بعد وزیراعظم کو استعفے کی پیشکش کی‘
انھوں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے عدل کا اندازہ اس باے سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے 2015 میں فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت اس لئے کی تھی کہ اس میں دہشت گردوں کو اپنی بات سامنے رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہو گا،اگر بات انصاف کی ہو تووہ دہشت گرد تک کے لئے انصاف کی توقع کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی تحقیقاتی کمشین کی رپورٹ میں وزارت داخلہ کے کردار پر سوال اٹھات ہوئے کہا گیا تھا کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ کی جانب سے غلط بیانی سے کام لیا گیا تھا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وزارت داخلہ کو اس کے کردار کا علم ہی نہیں ہے۔
رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ساڑھے تین سال میں نیکٹا کا صرف ایک اجلاس بلایا اور اس کے علاوہ سانحہ کوئٹہ کے بعد صوبے کے پولیس سربراہ حملے کے بعد کئے جانے والے بنیادی اقدامات سے لاعلم نکلے اور جائے وقوعہ کا فوری فرانزک تجزیہ بھی نہیں کیا گیا ۔
مزید پڑھیں:چوہدری نثار کےخلاف توہین عدالت کی درخواست کا فیصلہ
تحقیقاتی کمیشن کی اس رپورٹ کے ردعمل میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اس رپورٹ کو مرچ مصالحہ قرار دے کر کہا کہ ان کا موقف سنے بغیر یہ رپورٹ جاری کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کےبعد وہ وزیر اعظم کے پاس گئے اور کہا کہ اگر ان کے بات کرنے سے حکومت کو مشکل پیش آتی ہے تو وہ استعفیٰ دیتے ہیں تاکہ ریکارڈ درست کر سکیں کیوں کہ رپورٹ میں ذاتی الزامات لگائے گئے ہیں۔
چوہدری نثار کی جانب سے اس ردعمل کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف بات کرنے پروفاقی وزیر داخلہ کے خلاف درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ۔
اس معاملے پر پیپلز پارٹی کے جنرل سیکریٹری سردار لطیف کھوسہ نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی قانونی ٹیم عدالتی کمیشن رپورٹ کے خلاف بات کرنے پر چوہدری نثار کے خلاف توہین عدالت کی درخوات دائر کرے گی کیوں کہ ان کا یہ بیان سپریم کورٹ کی توہین ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال اگست میں ٹارگٹ کلنگ کے بعد بلوچستان بار کونسل کے صدر ایڈووکیٹ بلال انور کاسی کی میت سول اسپتال لائی گئی تو اس دوران ہسپتال کے شعبہ حادثات کے بیرونی دروازے پر خود کش دھماکے کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد جاں بحق اور 112 سے زائد زخمی ہوئے تھے جن میں زیادہ تعداد وکلاء کی تھی۔