ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ
اسلام آباد: ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال نے تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے اور اس کی شفارشات پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کردیا۔
مذکورہ کمیشن امریکا کی جانب سے ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے اور ہلاک کرنے پر رپورٹ کی تیاری کیلئے بتایا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جاوید اقبال نے یہ مطالبہ پارلیمنٹ میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے ایک اجلاس میں کیا جس کی سربراہی سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمان ملک کررہے تھے۔
جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ 'بدقسمتی سے ہر حادثے کے بعد کمیشن قائم کرنے اور اس کی رپورٹ کو داخل دفتر کرنے کا رواج قائم ہوتا جارہا ہے جس کے باعث یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ کمیشن بنانے کا مقصد وقت طلب کرنا ہے تاکہ عوام وہ حادثہ بھول جائے، اور ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ بھی داخل دفتر ہی کردی گئی ہے'۔
مزید پڑھیں: ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ: میڈیا کو لیک کرنے پر تفتیش کا آغاز
خیال رہے کہ القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کو، جن پر امریکا نے 11 ستمبر 2001 کے حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا، 2 مئی 2011 کے دن پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد میں سرجیکل اسٹرائیک کے دوران مبینہ طور پر ہلاک کردیا تھا۔
اس واقعے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا جس میں سے ایک یہ بھی تھا کہ کیا پاکستان نے جان بوجھ کر اسامہ بن لادن کو آرمی کے ٹریننگ سینٹرکے قریب چھپا رکھا تھا؟
جس کے بعد حکومت نے واقعے کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن قائم کیا جس میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کے علاوہ دیگر اراکین میں عباس خان، اشرف جہانگیر قاضی اور ریٹائر لیفٹننٹ جنرل ندیم احمد شامل تھے۔
یاد رہے کہ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ 3 سال قبل مکمل کرکے حکومت کو پیش کردی تھی تاہم اسے تاحال عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ 700 صفات پر مشتقل رپورٹ جس کی تیاری کیلئے 300 افراد سے انٹرویو کیے گئے اور اس میں 100 سے زائد سفارشات بھی شامل کی گئیں تھیں ایک انٹر نیشنل میڈیا گروپ کی جانب سے 2013 میں لیک کردی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ: بہت سے سوالات جواب طلب ہیں
جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ مذکورہ تحقیقات کیلئے حکومت کی جانب سے 5 کروڑ روپے کی خطیر رقم جاری کی گئی اور رپورٹ تفصیلی مشاورت کے بعد مکمل کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کو عوام کے سامنے لانا اور اس کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔
کمیشن کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ان کی بیٹی نے ان سے متعدد مرتبہ پوچھا کہ آیا امریکا کے دعوؤں کے مطابق اسامہ بن لادن ہلاک ہوچکے ہیں جس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اگر انھوں نے اس حوالے سے انکشاف کردیا تو رپورٹ میں کچھ باقی نہیں بچے گا۔
جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ رپورٹ کو عوام کے سامنے لائے اور اگر ضرورت ہو تو اس کے کچھ حصے سامنے نہ لایا جائے۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں ان افراد کی نشاندہی کی کوشش کی گئی ہے جو واقعے کے ذمہ دار تھے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں واقعے کے ذمہ داران کا تعین کیا گیا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کی بھی تجاویز پیش کی گئیں ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکہ اسامہ تک کیسے پہنچا: ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ
انھوں نے کہا کہ 'کیونکہ میں نے حلف اٹھا رکھا ہے اس لیے میں ان ناموں کا انکشاف نہیں کرسکتا، صرف حکومت ہی ان ناموں کے بارے میں بتا سکتی ہے'۔
جولائی 2013 کو اشرف جہانگیر قاضی نے سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کو بتایا تھا کہ بین الاقوامی میڈیا گروپ کی جانب سے لیک کی جانے والی رپورٹ ابتدائی ڈرافٹ تھا اور یہ حتمی ڈرافٹ نہیں تھا جو وزیراعظم کو پیش کیا گیا تھا۔
حتمی رپورٹ کو کافی حد تک 'نورمل' کیا گیا تھا کیونکہ لیک ڈرافٹ میں فورسز خاص طور پر انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو نہ صرف ان کی ناکامی بلکہ سول انٹیلی جنس اداروں کیلئے سنگین صورت حال پیدا کرنے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔
حتمی رپورٹ 40 صفحات پر مشتمل تھی اور اس میں اشرف جہانگیر قاضی اور جسٹس اقبال کے نوٹس موجود تھے جبکہ ابتدائی ڈرافٹ اشرف جہانگیر قاضی اور ریٹائر لیفٹننٹ جنرل احمد نے علیحدہ علیحدہ تیار کیا تھا جسے جسٹس جاوید اقبال نے ترتیب اور حمتی شکل دی تھی۔
اس وقت سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کو بتایا گیا تھا کہ ابتدائی ڈرافٹ کی تیاری کے بعد کمیشن کے اراکین کے درمیان ذمہ داروں کا تعین کرنے کے حوالے سے کچھ مسائل کا سامنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: "ایبٹ آباد آپریشن میں امریکہ کو گراؤنڈ سپورٹ حاصل تھی"
اس مسئلے کے حل کیلئے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے ایک اصلاحی ڈرافٹ ترتیب دیا لیکن اشرف جہانگیر قاضی نے چیئرمین کے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے چیئرمین کی جانب سے 'محفوظ کھیلنے' پر ایک اختلافی نوٹ شامل کیا۔
کمیشن کی حتمی رپورٹ میں جسٹس جاوید اقبال، جو واقعے کی ذمہ داری کسی ایک فرد یا ادارے پر نہیں ڈالنا چاہتے تھے، ڈرافٹ میں 'مشترکہ ناکامی' کا لفظ شامل کرایا اور تجویز پیش کی ریاست کے تمام ستون 2 مئی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے مشترکہ ذمہ دار ہیں جو قومی شرمندگی کا باعث بنی۔
یہ رپورٹ 20 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔