• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

مذہب کی جبری تبدیلی کا بل: 13 ارکان اسمبلی کی زندگیوں کو خطرہ

شائع December 18, 2016

کراچی: سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ نے محکمہ داخلہ سندھ اور انسپکٹر جنرل( آئی جی)پولیس سندھ سے کہا ہے کہ مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف قانون سازی میں حصہ لینے والے 3 صوبائی وزراء سمیت 13 اراکین اسمبلی اور ایک بیوروکریٹ کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔

یہ ہدایات سندھ پولیس کی اسپیشل برانچ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے بعد جاری کی گئیں جس میں اسمبلی ارکان کی سیکیورٹی بہتر بنانے کی نشاندہی کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ سندھ اسمبلی نے گزشتہ ماہ متفقہ طور پر فوجداری قانون کے تحت اقلیتوں کے تحفظ کے پرائیویٹ بل کو منظور کیا تھا جس کے تحت مذہب کی جبری تبدیلی میں ملوث پائے گئے افراد کے لیے سزائیں اور نابالغ افراد کے مذہب تبدیل کرنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

بل پاس ہونے کے بعد سندھ پولیس کی اسپیشل برانچ کی جانب سے ایک الرٹ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ بل منظور ہونے کے بعد صورتحال کافی کشیدہ ہے اور ممبران صوبائی اسمبلی بالخصوص وہ قائمہ کمیٹی کے وہ اراکین جنہوں نے اس بل کو پرائیویٹ قرار دیا کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں مذہب کی جبری تبدیلی پر 5 سال قید کی سزا

اسپیشل برانچ نے خبردار کیا کہ سندھ اسمبلی کی اقلیتوں سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی کے ارکان کو مذہبی اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے نقصان پہنچائے جانے کا خدشہ ہے۔

اسپیشل برانچ کی رپورٹ کے بعد سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ نے آئی جی سندھ اور محکمہ داخلہ کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کو خط لکھ کر ان 14 افراد کی سیکیورٹی سخت کرنے کا کہا گیا ہے۔

اراکین سندھ اسمبلی جو کہ اسٹینڈنک کمیٹی میں شامل تھے اور ان کی زندگیوں خطرہ قرار دیا گیا ہے ان میں اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین پونج بھیل، شازیہ جاوید، بلقیس مختار، مہیش کمار ملانی، عارف مسیح بھٹی، نند کمار گوکلانی، صوبائی وزیر فلاح و بہبود شمیم ممتاز، صوبائی وزیر نثار کھوڑو، صوبائی وزیر گیانچند عیسرانی، دیوان چند چاولہ، کھٹومل جیون، وقار حسین شاہ، لال چند اکرانی اور محکمہ اقلیت کے سیکریٹری اے بی ناریجو شامل ہیں۔

اسپیشل برانچ کی جانب سے خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر سندھ حکومت نے مذہب کی جبری تبدیلی کا بل ختم نہ کیا تو مخصوص تنظیموں کی جانب سے وزیر اعلیٰ ہاؤس اور سندھ اسمبلی کا گھیراؤ بھی کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: مذہب کی جبری تبدیلی: سندھ حکومت کا بل پر نظرثانی کا فیصلہ

خیال رہے کہ اس بل پر جہاں سول سوسائٹی اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے خوشی کا اظہار کیا تھا وہیں مذہبی جماعتوں نے اسے اسلام مخالف قانون قرار دیا تھا۔

اس بل کو تقریبا تمام بڑی مذہبی جماعتوں اور کالعدم تنظیموں نے مسترد کردیا تھا جب کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے خبردار کیا تھا کہ اگر سندھ حکومت نے بل کی متنازع شقوں میں ترامیم نہیں کیں تو اس کے سنگین نتائج نکلیں گے۔

بل پر اعتراضات

مذہبی جماعتوں کو اس بل پر سب سے بڑا اعتراض مذہب تبدیل کرنے والے فرد کی کم سے کم عمر 18 سال رکھنے پر ہے۔

ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی جماعتوں کی دھمکی کے باعث ہی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) بل پر دوبارہ غور کرنے کے لیے راضی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مذہب کی جبری تبدیلی پر ہندو برادری خوفزدہ

سینیئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو مذہبی جماعتوں کے نقطہ نظر کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اقلیتوں کے تحفظ کا بل اسلام کی روح کے خلاف نہیں ہے، تاہم اگر بل میں کوئی متنازع شق شامل ہے تو اسمبلی اس پر دوبارہ غور کر سکتی ہے۔

یہ بل منظوری کے گورنر سندھ کو بھجوا دیا گیا ہے تاہم صوبائی قانون ساز اس بل کے منظور ہونے یا مسترد ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر اس کا دوبارہ جائزہ یا اس میں ترامیم کر سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ سندھ اسمبلی میں موجود تمام پارٹیوں متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) پاکستان مسلم لیگ نواز( پی ایم ایل این) اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل( پی ایم ایل ایف) نے بھی بل کی حمایت کی تھی۔

تاہم اہم بات یہ ہے کہ 168ارکان پر مشتمل سندھ اسمبلی میں کسی بھی مذہبی جماعتوں کا ایک بھی رکن نہیں ہے۔


یہ خبر 18 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024