چکوال: کشیدگی کے بعد احمدیوں کی نقل مکانی
چکوال: اقلیتی کمیونٹی احمدیوں کی عبادت گاہ پر مشتعل ہجوم کے حملے کے بعد غیر محفوظ حالات کے باعث احمدی برادری کے کئی افراد نے علاقہ چھوڑ دیا، ذرائع کے مطابق حملے کے ایک دن بعد ہی دوالمیال سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی۔
چکوال میں پرتشدد ہجوم کے حملے میں 2 افراد ہلاک اور ایک شخص زخمی ہوا تھا، ہلاک ہونے والا ایک شخص ملک خالد جاوید حملے کے وقت عبادت گاہ میں موجود تھا، جس کی موت دل کا دورہ پڑنے کے باعث ہوئی، بعد ازاں ان کی لاش کو چناب نگر منتقل کرکے انہیں سپرد خاک کردیا گیا۔
ملک خالد جاوید کے جنازے میں جانے والے کئی افراد گاؤں واپس نہیں آئے جب کہ غیر محفوظ حالات کے باعث دیگر افراد بھی گاؤں چھوڑ گئے۔
گاؤں کے رہائشی ایک شخص نے ڈان کو بتایا کہ ان کے گھرکے قریب ہی احمدیوں کے 3 خاندان رہائش پذیر تھے مگر عبادت گاہ پر حملے کے بعد تمام لوگ اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکے ہیں، گھروں کو خالی کرکے جانے والے احمدیوں کے گھروں میں بندھے مویشیوں کی انہوں نے دیکھ بھال کی۔
یہ بھی پڑھیں: احمدیوں کی عبادت گاہ کا ’گھیراؤ‘ کرنے والا ہجوم منتشر
گاؤں کے شخص کے مطابق گاؤں سے احمدی برادری کے کئی اور افراد بھی چلے گئے ہیں جب کہ کچھ احمدیوں کے گھروں پر فوج، پولیس اور رینجرز کے اہلکار سیکیورٹی کے لیے تعینات کردیئے گئے ہیں۔
احمدی برادری کے مقامی شخص نے ڈان کو بتایا کہ کچھ خاندان غیر محفوظ حالات کے باعث گاؤں چھوڑ کر جاچکے ہیں لیکن ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر(ڈی پی او) اور ڈسٹرکٹ کو آرڈینیشن آفیسر( ڈی سی او) نے احمدیوں کو اپنے گھروں میں رہنے کا کہا ہے، فوج، پولیس اور رینجرز اہلکاروں کو گاؤں میں تعینات کردیا گیا ہے جو گشت کرتے رہتے ہیں۔
احمدی شخص کے مطابق پولیس نے عبادت گاہ پر حملے کے الزام میں 32 افراد کو گرفتار کرلیا ہے، جن میں 2 احمدی بھی شامل ہیں۔
چواس سیداں پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) اور سب انسپکٹر محمد نواز کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی (اے ٹی اے) اور پاکستان پینل کوڈ ایکٹ (پی پی اے) کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ پولیس کی جانب سے ربیع الاول کی مجالس کے لیے دوالمیال میں 20 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
مزید کہا گیا کہ احمدی مخالف جلوس کی سربراہی 3 لوگ کر رہے تھے، جس میں 2800 سے 3000 ہزار افراد شامل تھے، جلوس کی سربراہی کرنے والوں نے دیگر افراد احمدیوں کے خلاف بھڑکایا اور ان کی عبات گاہ پر قبضہ کرنے کے لیے اکسایا۔
مزید پڑھیں: اقلیتیوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، رانا ثنا اللہ
ایف آئی آر کے مطابق پولیس نے مشتعل افراد کے جلوس کو روکنے کی کوشش کی مگر ہجوم نے پولیس پر پتھراؤ کرکے احمدیوں کی عبادت گاہ کے مرکزی دروازے پر لاٹھیوں اور اینٹوں سے حملہ کردیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ کچھ مشتعل افراد دیوار پر چڑھ کر عبادت گاہ میں داخل ہوئے اور 2 افراد نے وہاں فائرنگ شروع کردی، عبادت گاہ میں موجود 46 افراد نے پچھلے دروازے سے بھاگ کر جان بچائی جب کہ فائرنگ سے 3 افراد زخمی ہوئے اور ایک شخص ملک خالد جاوید حملے کے وقت دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوگیا، حملہ آوروں نے عبادت گاہ میں توڑ پھوڑ کرنے کے بعد اسے نذر آتش کرنا شروع کردیا۔
پولیس نے عبادت گاہ پر حملے، جلاؤ گھیراؤ کے بعد مشتعل ہجوم کے 4 منتظمین سمیت 35 افراد کو مقدمے میں نامزد کردیا جب کہ ایف آئی آر میں 2 نامعلوم احمدیوں کے نام بھی ڈالے گئے جب کہ 30 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: چکوال میں احمدیوں کو جان کا خطرہ
ڈی پی او مسعود مراٹھ نے ڈان کو بتایا کہ حملے کی تحقیقات اور ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جاچکی ہے۔
ڈی سی او محمود جاوید بھٹی کے مطابق ضلعی امن کمیٹی کے اجلاس میں تمام فرقوں کے رہنماؤں نے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں ہے، تمام ملزمان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی جب کہ اکثریت کو اقلیت پر کسی بھی طرح کا ظلم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
یہ خبر 15 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (2) بند ہیں