آسٹریلیا میں پاکستان کی فتوحات کی تاریخ
پاکستان کی کرکٹ ٹیم ان دنوں کینگروز کے دیس آسٹریلیا میں ایک کٹھن دورے پر ہے۔ آسٹریلیا کی باؤنس رکھنے والی پچیں اور وہاں کے بڑے میدان مہمان ٹیموں کے لیے مشکلات کا باعث ہوتے ہیں لیکن یہ مشکلات ایشیائی ٹیموں کے لیے کچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں۔
پاکستان نے اپنی چھ سے زائد دہائیوں پر محیط ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں آسٹریلیا کے متعدد دورے کیے لیکن کامیابی کا تناسب غیر تسلی بخش رہا۔
یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ ابتدائی عشروں میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی آسٹریلیا کے متعدد دوروں میں بہتر رہی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کارکردگی میں نمایاں تنزلی ہوئی ہے۔ پاکستان نے آسٹریلیا میں آخری مرتبہ سڈنی کے مقام پر 1995 میں ٹیسٹ میچ میں فتح حاصل کی تھی اور اب پاکستان کو آسٹریلیا میں کوئی ٹیسٹ میچ جیتے 20 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔
آسٹریلیا میں پاکستان کی کامیابیوں کی تاریخ بہت مختصر ہے لیکن کینگروز کے دیس میں حاصل کی گئی کامیابیاں یا پھر کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی پاکستان کی تاریخ میں سنہرے حروف میں درج ہے ۔
آسٹریلیا میں پاکستان نے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی پہلی کامیابی سڈنی کے مقام پر جنوری 1977 میں حاصل کی تھی جب جنوری سے 14سے 18 جنوری کے دوران کھیلے گئے سیریز کے اس تیسرے اور آخری میچ میں عمران خان اور سرفراز نواز نے تیز رفتار سوئنگ باؤلنگ کا ایسا جادو جگایا کہ آسٹریلیا کے مستند بلے بازوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔
اس سیریز کا پہلا ٹیسٹ ڈرا ہوگیا تھا جبکہ دوسرے ٹیسٹ میں میلبر ن کے مقام پر آسٹریلیا نے پاکستان کو 348 رنز سے شکست دی تھی۔
تیسرے ٹیسٹ میں بھی آسٹریلیا کی ٹیم جیتنے کے لیے فیورٹ تھی لیکن پاکستانی ٹیم اس ٹیسٹ میں ایک نئے روپ میں سامنے آئی ۔ آسٹریلیا کے کپتان گریگ چیپل نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا مگر پوری ٹیم صرف 211 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔
اگر ڈینس للی اور واکر کے مابین دسویں وکٹ میں 52 رنز کی شراکت قائم نہیں ہوتی تو آسٹریلیا کی پہلی اننگز مزید کم اسکور پر سمٹ جاتی۔ اس اننگز میں عمران خان چھ وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کے سب سے کامیاب باؤلر رہے۔
آسٹریلیا کے کم اسکور کے جواب میں پاکستان نے آصف اقبال کی سنچری اور جاوید میانداد اور ہارون رشید کی نصف سنچریوں کی بدولت 360 رنز بنا کر 149 رنز کی فیصلہ کن برتری حاصل کی جبکہ دوسری اننگز میں بھی پاکستان نے مخالف ٹیم کو 180 رنز پر آؤٹ کر دیا اور جیت کیلئے درکار 32 رنز محض دو وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر کے آسٹریلیا کی سرزمین پر ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی فتح حاصل کرلی۔
عمران خان نے 165 رنز کے عوض 12 وکٹیں حا صل کر کے پاکستان کی اس تاریخی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب عمران خان نے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں کسی ایک میچ میں دس سے زیادہ وکٹیں حا صل کیں۔
آسٹریلیا میں اپنی اولین فتح کے لیے پاکستان کو 25 سال کا طویل انتظار کرنا پڑا جبکہ دوسری فتح صرف دو سال کے بعد حاصل ہوئی۔
میلبرن کے مقام پر مارچ 1979 میں کھیلے گئے میچ میں پاکستان نے آسٹریلیا کو 71 رنز سے شکست دی۔
پہلی اننگز میں 28رنز کی برتری حاصل کرنے کے بعد پاکستان نے اپنی دوسری اننگز 353 رنز پر ڈیکلیئر کردی۔ جیت کے لیے درکار 382 رنز کے ہدف کے تعاقب میں آسٹریلیا کی تین وکٹیں 128 رنز پر گر گئیں۔ اس موقع پر کم ہیوز اور ایلن بارڈر نے 177رنز کی شراکت قائم کر کے اپنی ٹیم کو فتح کی راہ پر گامزن کر دیا۔
آسٹریلیا کو جیت کے لیے صرف 77 رنز درکار تھے اور اس کی سات وکٹیں باقی تھیں جبکہ پاکستان کی شکست یقینی نظر آ رہی تھی لیکن ترپ کا آخری پتہ استعمال کرنے کی غرض سے کپتان مشتاق محمد نے گیند سرفراز نواز کی طرف اچھالی اور سرفراز کچھ اس انداز سے کپتان کے اعتماد پر پورا اترے کے سب ششدر رہ گئے۔
سرفراز نواز نے اس تاریخی باؤلنگ اسپیل میں 33 گیندوں پر ایک رن دے کر سات وکٹیں حاصل کیں یوں آسٹریلیا کی آخری سات وکٹیں 65 گیندوں پر صرف پانچ رنز کے اضافے سے گریں۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں سوئنگ باؤلنگ کے اتنے شاندار اسپیل کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ اس تاریخی اننگز میں سرفراز نواز نے 86 رنز دے کر 9 وکٹیں حاصل کیں اور ایک یقینی شکست کو فتح میں بدل دیا۔ یہ پہلا اور اب تک کا واحد موقع ہے کہ پاکستان نے آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ جیتا ہو۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے باصلاحیت نوجوانوں کی ناکامی کی داستاں
پاکستان نے 82-1981 کے دورہ آسٹریلیا میں میلبرن کے مقام پر سیریز کا تیسرا ٹیسٹ جیت کر سیریز ہارنے کی خفت کو تھوڑا کم کیا۔
آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان 1989 میں بھی ایک دلچسپ اور سنسی خیز ٹیسٹ سیریز کھیلی گئی۔ عمران خان کی قیادت میں جانے والی نوجوان اور نا تجربہ کار ٹیم نے میلبرن اور ایڈیلیڈ کے مقام پر میزبان ٹیم کا جم کر مقابلہ کیا۔ میلبرن میں کھیلے گئے میچ میں پاکستان ٹیم کو 92 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ میچ دوسری اننگز میں بنائی گئی اعجاز احمد کی دلیرانہ سنچری اور توصیف احمد کی دفاعی بیٹنگ کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ توصیف نے اس میچ میں چار گھنٹے سے زیادہ وقت وکٹ پر گزارا اور 155 گیندوں کا سامنا کیا اور وہ دونوں اننگز میں ناٹ آؤٹ رہے۔ پاکستان میچ ڈرا کرنے کے بہت قریب آ گیا تھا لیکن کھیل کا وقت ختم ہونے سے صرف 22 منٹ پلے پاکستان کی آخری وکٹ گری۔
اس سیریز کا دوسرا ٹیسٹ ایڈیلیڈ کے مقام پر کھیلا گیا جہاں نوجوان وسیم اکرم نے اپنے کپتان عمران خان کے ساتھ مل کر یقینی شکست کا رخ پاکستان کی ممکنہ جیت کی طرف موڑ دیا تھا لیکن ایک اعصاب شکن مقابلے کے بعد یہ میچ ڈرا پرمنتج ہوا۔
پہلی اننگز میں 84 رنز کے خسارے میں جانے کے بعد جب پاکستان نے اپنی دوسری اننگز کا آغاز کیا تو وہ آغاز کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا۔ پاکستان کی چار وکٹیں صرف 22 رنز پر گریں تاہم وسیم اکرم اور عمران خان نے چھٹی وکٹ کے لیے 191 رنز کی شراکت قائم کر کے پاکستان کو میچ میں واپس لے آئے۔ پاکستان نے آسٹریلیا کو جیت کے لیے 323 رنز کا ہدف دیا اور آسٹریلیا ڈین جونز کی دفاعی بیٹنگ کے باعث اس میچ کو ڈرا کرنے میں کامیاب رہا۔
مشتاق احمد کی عمدہ باؤلنگ اور اعجاز احمد کی سنچری کے باعث 1995 میں سڈنی کے مقام پر کھیلے گئے سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں پاکستان کو کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن سڈنی پہنچنے سے پہلے ہی پاکستان سیریز کے دو ابتدائی ٹیسٹ ہار کر سیریز میزبان ٹیم کی جھولی میں ڈال چکا تھا۔
پاکستان کی موجودہ ٹیم بہت سے باصلاحیت کھلاڑیوں پر مشتمل ہے اور قوم کو اس ٹیم سے دورہ آسٹریلیا سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ امید ہے کہ یہ ٹیم ماضی میں حاصل کی گئی کامیابیوں سے حوصلہ لے گی اور آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی ناکامیوں کے تسلسل کو توڑنے میں کامیاب ہوگی۔