• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

اسلام آباد: فلٹریشن پلانٹس کا پانی ’مضر صحت‘ بن گیا

شائع December 12, 2016

اسلام آباد: میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) کی غیر سنجیدگی کے باعث دارالحکومت کے رہائشیوں کو فلٹریشن پلانٹس سے حاصل ہونے والا مضر صحت پانی پینا پڑ سکتا ہے۔

ایم سی آئی کے ذرائع کے مطابق پہلے اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں قائم 34 فلٹریشن پلانٹس ایک نجی کانٹریکٹر چلا رہا تھا، تاہم ستمبر میں کانٹریکٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد میٹروپولیٹن کارپوریشن نے خود ان پلانٹس کو چلانے کا فیصلہ کیا۔

اس کے بعد سے ہی ’ایم سی آئی‘ نے پانی میں کلورین ملانے اور فنڈز کی کمی کے باعث فلٹرز کی تبدیلی کا عمل سست کردیا ہے۔

واٹر ڈائریکٹوریٹ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’زیادہ تر فلٹریشن پلانٹس نے اب کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور جو کام کر رہے ہیں ان کی بھی مناسب مینٹیننس نہیں کی جارہی۔‘

یہ بھی پڑھیں: 80 فیصد پاکستانی آلودہ پانی پینے پر مجبور

انہوں نے کہا کہ ’اگرچہ صورتحال اتنی خراب نہیں جتنی ایم سی آئی کی طرف سے بتائی جارہی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے ہم نے فلٹرز کی تبدیلی اور پانی میں کلورین ملانے کا عمل سست کردیا ہے۔

ستمبر میں درجن سے زائد فلٹریشن پلانٹس کو مختلف شکایات آنے پر غیر فعال کردیا گیا تھا۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’ستمبر میں ہمارے سینئر افسران نے ہدایت کی کلورین اور نئے فلٹرز آنے تک چند فلٹریشن پلانٹس کو بند کرنے کی ہدایت کی تھی۔‘

چیف میٹروپولیٹن افسر سلیمان وڑائچ نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’ایم سی آئی فلٹریشن پلانٹس کو ایڈ ہاک بنیادوں پر چلا رہی تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پلانٹس سے متعلق ہمیں چند مسائل کا سامنا ہے جن پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے، اصل میں ہمیں فنڈز کی کمی کا سامنا ہے اور میں نے سی ڈی اے کو قرضے کی سمری بھیجی ہے اور جیسے ہی ہمیں فنڈز ملتے ہیں ہم پلانٹس کے لیے کلورین اور فلٹرز کی خریداری کریں گے۔‘

سلیمان وڑائچ نے دعویٰ کیا کہ ’پانی میں کلورین ملانے اور فلٹرز کی تبدیلی بھی مختلف انتظامات کے تحت کی جارہی تھی۔‘

کلورین اور فلٹرز کی خریداری کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال سے چند نجی کانٹریکٹرز انہیں کلورین اور فلٹرز سپلائی کر رہے تھے‘، تاہم ایم سی آئی کے متعدد عہدیداروں نے گزشتہ تین ماہ سے زائد عرصے سے کوئی خریداری نہ کرنے کا دعویٰ کیا۔

مزید پڑھیں: صحت اور قیمت کے اعتبار سے نلکے کا پانی پینا بہتر

ایم سی آئی ان فلٹریشن پلانٹس کو ’سی ڈی اے‘ سے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے چلا رہی تھی، کیونکہ سی ڈی اے کے حوالے سے شہریوں کو مضر صحت پانی فراہم کرنے سے متعلق شکایات تھیں۔

رواں سال فروری میں سی ڈی اے کی اپنی ٹیسٹ لیبارٹری نے چیک کیے گئے 11 فلٹریشن پلانٹس میں سے 7 کا صارفین کے لیے مضر صحت پانی فراہم کرنے کا انکشاف ہوا تھا۔

پولی کلینک ہسپتال کے ڈاکٹر شریف استوری کا کہنا تھا کہ شہر میں پانی سے پیدا ہونے والے مسائل بہت عام ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’آلودہ اور مضر صحت پانی پینے سے پیٹ کے امراض، ہیضہ، ڈائریا، پیچش، ہیپاٹائٹس ’اے‘ اور ’ای‘ اور ٹائیفائڈ جیسی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اور اگر ایسے پانی کا لمبے عرصے تک استعمال کیا جائے تو جگر اور گردے کے مسائل بھی ہوسکتے ہیں۔‘


یہ خبر 12 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024