ٹرمپ انتظامیہ تک پہنچنے کی پاکستانی کوششیں
واشنگٹن: نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے سفارتی مہم کے تحت پاکستان کی اہم ترین ٹیم امریکی دارالحکومت واشنگٹن پہنچ گئی۔
بعض میڈیا رپورٹس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان ان کوششوں کے ذریعے 20 جنوری 2017 کو ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری تقریب میں شرکت کے لیے وزیراعظم نواز شریف کو بھیجنے کے امکان پر غور کر رہا ہے۔
پاکستانی سفارت خانے کے عہدیداروں کے مطابق اگرچہ وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی کا دورہ امریکا ٹرمپ انتظامیہ کے ابتدائی دنوں میں پلان کیے گئے منصوبوں کے مطابق ہے تاہم 'وزیراعظم کے دورے کے بارے میں ابھی بات کرنا قبل از وقت ہوگا'۔
طارق فاطمی واشنگٹن میں اپنے دورے کی سرکاری مصروفیات پیر 5 نومبر سے شروع کررہے ہیں، وہ اگلے ہفتے کے آغاز میں نیویارک کا دورہ کرکے ٹرمپ کی ٹیم سے بھی ملاقات کریں گے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ نے پاکستان کے دورے کی خواہش ظاہر کردی
وہ واشنگٹن میں امریکی کانگریس کے نو منتخب نمائندوں سے ملاقاتوں سمیت سبکدوش ہونے والی اوباما انتظامیہ کے عہدیداروں سے بھی ملاقات کریں گے۔
خیال رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ میں شامل 2 سینیئر عہدیدار نامزد وزیر دفاع جیمز میٹس اور مجوزہ قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلین دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس میں پاکستانی کردار کی اہمیت سے واقف ہیں۔
مائیکل فلین بھی ایک ریٹائرڈ فوجی جرنل ہیں، انہوں نے ستمبر میں پاکستانی سفارتخانے میں قوالی کی محفل میں شرکت کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی کردار پر گفتگو کی تھی۔
دوسری جانب پاکستانی سفارتی مہم پر نظر رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستانی ٹیم کو واشنگٹن اور نیویارک میں مایوس گفتگو برداشت کرنے سمیت سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔
دو طرفہ تعلقات میں پیچیدگیاں
گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے پاکستان اور امریکا کے پیچیدہ تعلقات پر میڈیا بریفنگ میں کہا تھا کہ صدر براک اوباما نے پاکستان کے دورے کی خواہش ظاہر کی تھی مگر دونوں ممالک کے خراب تعلقات کی وجہ سے وہ یہ دورہ نہیں کرپائے۔
یہ بھی پڑھیں: ’پیچیدہ تعلقات نے اوباما کو دورہ پاکستان سے باز رکھا‘
دوسری جانب آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کا انتخابی منشور بھی پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بگاڑ کو ظاہر کرتا ہے۔
مذکورہ دستاویزات میں تعلقات کو 'لازمی' مگر 'مشکل' قرار دیتے ہوئے انھیں 'مضبوط' کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
دستاویزات میں تعلقات کی بہتری کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'بہتری اُس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک پاکستان دہشت گردوں کی مدد کرنے والوں کو سزا نہیں دیتا'، اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن میں مدد فراہم کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری بھی تعلقات میں بہتری کے لیے حائل ہے۔
دستاویزات میں پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام پر بھی بات کی گئی ہے جو اسلام آباد کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا مزید کہا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کافی پیچیدگیاں موجود ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ 8 سال سے تعلقات کی بہتری کے لیے راہ ہموار نہیں ہوسکی، خصوصاً صدر اوباما کی جانب سے پاکستانی سرزمین پر اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا حکم دینے کے بعد سے تعلقات خراب ہیں۔
مزید پڑھیں: نواز شریف سے گفتگو : ٹرمپ کی ٹیم کو پاکستانی ورژن پر اعتراض
ترجمان وائٹ ہاؤس جوش ارنسٹ کا کہنا تھا کہ براک اوباما کی جانب سے پاکستانی ہم منصب سے بات کرنا ترجیح رہی ہے ،مگر دونوں ممالک کے پیچیدہ حالات کے باعٖث براک اوباما پاکستان کا دورہ نہیں کرسکے۔
ترجمان کے مطابق براک اوباما کے دورے سے پاکستان جیسے قریبی اتحادی ممالک کے لوگوں کے لیے اچھا اور مضبوط پیغام جاتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب بیرون ممالک دوروں کی منصوبہ بندی کریں گے تو یقینی طور پر ان میں پاکستان کا نام بھی شامل ہوگا، کیوں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات نہایت ہی اہم ہیں۔
یہ خبر 05 دسمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی