کراچی: ریجنٹ پلازہ میں آتشزدگی، ہلاکتوں کی تعداد 12 ہوگئی
کراچی: شارع فیصل پر واقع ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں آگ لگنے کے واقعے میں جھلسنے اور دم گھٹنے سے خواتین و بچوں سمیت ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 12 ہوگئی۔
ہوٹل میں آتشزدگی کا واقعہ رات گئے پیش آیا، آگ ہوٹل کے گراؤنڈ فلور پر واقع کچن میں لگی، جس نے آہستہ آہستہ ہوٹل کی 6 منزلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے باعث ہوٹل میں مقیم سیکڑوں افراد محصور ہوگئے۔
آگ بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ کی تین گاڑیاں اور اسنارکل موقع پر پہنچے، جس کے بعد محصور افراد کو نکالنے کے لیے آپریشن کا آغاز کیا گیا۔
عمارت میں دھواں بھرجانے کے باعث امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا رہا تاہم فائر بریگیڈ حکام نے آگ پر تقریباً 3 گھنٹے بعد قابو پالیا، گھنٹوں تک عمارت میں محصور رہنے کے باعث جھلسنے اور دم گھٹنے سے خواتین و بچوں سمیت 11 افراد ہلاک اور 75 سے زائد زخمی ہوگئے۔
آگ لگنے کے بعد ہوٹل میں مقیم کئی افراد نے کھڑکیوں سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی، چھلانگ لگانے والے افراد میں سے کئی افراد کو شدید چوٹیں آئیں، جنہیں تشویش ناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔
جناح میڈیکل ہسپتال کے شعبہ حادثات کی سربراہ سیمی جمالی کے مطابق جاں بحق افراد میں 3 ڈاکٹرز شامل ہیں، جب کہ 5 خواتین سمیت 10 افراد کی لاشیں جناح ہسپتال لائی گئیں۔
ہسپتال انتظامیہ کے مطابق عمارت میں دھواں بھر جانے سے 75 زائد افراد متاثر ہوئے، کئی افراد کو ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کردیا گیا۔
ڈان نیوز کے مطابق بعد ازاں پیر کی شب واقعے میں زخمی ہونے والا ایک شخص دوران علاج ہسپتال میں دم توڑ گیا۔
آگ لگنے کے باعث ہلاک ہونے والے افراد میں سے ایک کی شناخت بلوچستان کے علاقے جھل مگسی کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ او) ڈاکٹر حسن لاشاری کے نام سے ہوئی ہے۔
ہلاک ہونے والے ڈاکٹر حسن لاشاری کے خاندانی ذرائع کے مطابق وہ ٹریننگ کے سلسلے میں اپنے 2 ساتھیوں کے ساتھ کراچی آئے ہوئے تھے، ان کے ساتھ موجود 2 ڈاکٹرز بھی واقعے میں زخمی ہوئے۔
دم گھٹنے سے ہلاکتیں
چیف فائر آفیسر تحسین صدیقی کے مطابق ہوٹل میں ایئر کنڈیشنڈ سسٹم چلنے اور دھواں جمع ہونے کے باعث دم گھٹنے کی وجہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔
تحسین صدیقی کا کہنا تھا امدادی کارروائیوں کے بعد ہوٹل کو کلیئر کیا جا چکا ہے۔
ہوٹل میں موجود کرکٹرز زخمی
واقعے کے وقت یو بی ایل اسپورٹس ٹیم بھی ہوٹل میں موجود تھی، ٹیم کے سربراہ ندیم خان کے مطابق ہوٹل کی چوتھی منزل پر یو بی ایل کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی موجود تھے، جنہوں نے ہوٹل سے چھلانگ لگا کر زندگی بچائی۔
ندیم خان کے مطابق چھلانگ لگانے کی وجہ سے باؤلر یاسم مرتضیٰ، عادل رضا اور کرامت علی زخمی ہوئے۔
ہوٹل میں کرکٹ کے عالمی کھلاڑی صہیب مقصود بھی موجود تھے، جو واقعے میں محفوظ رہے، صہیب مقصود نے متاثرہ افراد کو ریسکیو کرنے میں امدادی کارکنان کی مدد بھی کی۔
حادثے کے بعد ہوٹل میں مقیم کرکٹرز شان مسعود اور یو بی ایل کے شعبہ اسپورٹس کے سربراہ ندیم خان کی رہائش گاہ پر منتقل ہوگئے۔
ندیم خان کے مطابق حادثے کے باعث یو بی ایل اور ایچ بی ایل کی ٹیموں کے درمیان قائد اعظم ٹرافی کے سلسلے میں آج میچ ہونا ممکن نہیں۔
امدادی کاموں میں مشکلات
امدادی سرگرمیاں مکمل کرنے کے بعد فیصل ایدھی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب ہوٹل میں آگ لگی اس وقت انتظامیہ کا کوئی بھی نمائندہ انہیں گائیڈ کرنے کے لیے موجود نہیں تھا، عمارت میں دھواں بھرجانے کے باعث انہیں ہوٹل کے داخلے راستوں کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔
فیصل ایدھی کے مطابق ہوٹل کے راستے تلاش کرنے اور ہوٹل میں پھنسے غیر ملکیوں کے ساتھ گفتگو کرنے میں مشکلات کے باعث امدادی کارروائیوں میں تاخیر ہوئی جبکہ غیر ملکی افراد ڈر کی وجہ سے ان کے ساتھ نیچے اترنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 12 سے 13 ہلاکتیں ہوئی ہیں، مگر وہ فی الحال ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کر سکتے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا نوٹس
دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آگ لگنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی کو فون کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کمشنر کراچی کو ہدایات دیں کہ آگ لگنے کے واقعے کی تحقیق کے لیے محکمہ داخلہ، لیبر اور کے ایم سی کے اہلکاروں پر مشتمل ٹیم تشکیل دے کر علاقے کو کلیئر کرانے کی رپورٹ پیش کی جائے۔
سید مراد علی شاہ نے محکمہ سول ڈیفینس کو بھی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ آگ بجھانے کے انتظامات تھے یا نہیں؟
میئر کراچی کا دورہ
اس سے قبل میئر کراچی وسیم اختر نے علی الصبح متاثرہ ہوٹل کا دورہ کیا اور ہوٹل میں آگ لگنے جیسے واقعات سے نمٹنے کے لیے نامناسب انتظامات پر برہمی کا اظہار کیا۔
وسیم اختر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پہنچنے سے پہلی ہی ریسکیو ٹیمیں پہنچ چکی تھیں، فوری طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ آگ کیسے لگی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی کراچی میں آگ لگنے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں، گزشتہ ماہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے ٹرمینل پر کھڑے آئل ٹینکر میں آگ لگ جانے کے باعث بھی 2 افراد جھلس کر جاں بحق ہوئے تھے۔
کراچی کی تاریخ میں آتشزدگی کا بدترین واقعہ 2012 میں پیش آیا تھا، جب گارمنٹ فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 289 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
گزشتہ برس بھی کراچی کے علاقے شیرشاہ میں ٹائروں کے گودام میں آگ لگ گئی تھی، جس پر بھی کئی گھنٹوں کے بعد قابو پایا گیا تھا۔
کراچی کے علاوہ بھی ملک میں آگ لگنے کے بدترین واقعے پیش آتے رہے ہیں، جس کی تازہ مثال گذشتہ دنوں بلوچستان کے ساحلی علاقے گڈانی میں تیل بردار جہاز میں لگنے والی آگ ہے، گڈانی شپ یارڈ میں ناکارہ تیل بردار جہاز کو توڑتے وقت آگ لگ گئی تھی، جس کے نتیجے میں 25 سے زائد مزدور جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔
تبصرے (2) بند ہیں