شامی حکومت حلب کا 60فیصد قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب
بشارالاسد کی شامی حکومت ضلع طارق الباب کو باغیوں سے چھڑا حلب کے دو تہائی حصے پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طارق الباب ضلعے کو جمعے کے روز حاصل کیا گیا جس کے بعد حکومت کے کنٹرول میں موجود علاقوں اور حلب کے ایئرپورٹ تک رابطہ قائم ہوسکے گا۔
شام کی فوج گزشتہ تین ہفتوں کے دوران مشرقی حلب کے کئی علاقوں کو باغیوں کے قبضے سے چھڑا چکی ہے لیکن اب بھی شہر کے مقبوضہ علاقوں میں ڈھائی لاکھ کے قریب افراد محصور ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق کئی ہزار افراد اپنے گھروں سے دربدر ہیں اور حلب کی موجودہ صورت حال اتنی سنگین ہوچکی ہے کہ مریضوں کے آپریشن بھی بغیر بےہوشی کے کیے جارہے ہیں۔
انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی شامی تنظیم کے مطابق طارق الباب کو باغیوں کے قبضے سے 4 سال بعد چھڑانے میں کامیابی حاصل ہوسکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شام: حلب میں روسی فضائیہ کی کارروائی، 25 شہری ہلاک
تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ ضلعے میں جاری جھڑپوں میں دونوں اطراف کے کئی جنگجو ہلاک اور زخمی ہوتے رہے جبکہ مشرقی حلب میں حکومت کے سخت آپریشن کے دوران لگ بھگ 300 افراد مارے جاچکے ہیں۔
مغربی حلب میں موجود برطانوی خبر رساں ادارے کے رپورٹر کے مطابق طارق الباب پر حکومتی فتح کا مطلب یہ ہے کہ باغیوں کے پاس موجود علاقے میں سے 60 فیصد علاقہ اب شامی حکومت کے ہاتھ میں آگیا ہے۔
فوج اور باغیوں میں جاری جھڑپ کے دوران ہزاروں افراد طارق الباب سے آس پاس کے علاقوں میں منتقل ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے انسانی حقوق کے سربراہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ باغیوں کے زیر تسلط "بہت بڑے قبرستان" میں تبدیل ہوجائے گا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ان علاقوں میں محصور کچھ لوگ بھوک سے اس قدر مجبور ہوچکے ہیں کہ وہ کچرے میں کھانے پینے کی اشیا تلاش کرنے لگے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل روس کی حمایت یافتہ صدر بشار الاسد کی حکومت نے اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ وہ انسانی حقوق کے اداروں کو ان علاقوں تک رسائی کے لیے چار محفوظ راستوں پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ 2011 میں شامی صدر بشار الاسد کے خلاف بغاوت کے سر اٹھانے سے قبل حلب کو شام کا سب سے بڑا شہر اور معاشی وصنعتی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔
گذشتہ چار سالوں کے دوران حلب بری طرح سے تقسیم ہوچکا ہے تاہم پچھلے 11 ماہ کے دوران شامی فوج، ایرانی فوجیوں اور روسی فضائی حملوں کی مدد سے اس ڈیڈلاک کو ختم میں کامیاب ہوئی ہے۔
تصاویر دیکھیں: خانہ جنگی سے شام کا بنیادی ڈھانچہ مکمل تباہ
رواں سال ستمبر کے آغاز میں شامی فوج کی جانب سے شہر کے مشرقی حصے میں کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا جس کے بڑے پیمانے پر ہونے والے آپریشن میں کامیابی کے بعد شہر کا مکمل کنٹرول حاصل کرلیا گیا۔
شامی مشاہداتی ادارے کے مطابق نومبر کے آخری پندرہ روز میں ہونے والی کارروائی میں 300 سے زائد معصوم شہری ہلاک ہوئے۔
واضح رہے کہ شام میں گذشتہ 5 سال سے جاری خانہ جنگی کے باعث ملک کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں فوج اور ملسح گروپوں کے درمیان جاری لڑائی کے باعث یہاں کے عوام شدید کرب میں مبتلا ہیں۔
شام میں جاری خانہ جنگی اور غیر ملکی فورسز کے حملوں میں اب تک 3 لاکھ سے زائد شہری ہلاک جبکہ لاکھوں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے یا مجبور کیے گئے ہیں۔
ادھر فضائی کارروائیوں سے بچنے کے لیے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں شہری مہاجر کیمپوں میں بے سرو سامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ان کیمپوں میں نہ صرف ادویات بلکہ خوراک کی بھی شدید کمی ہے جبکہ اس اذیت ناک زندگی سے بچنے کے لیے کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر یورپی ممالک کا رخ کرنے والے مہاجرین کی کثیر تعداد سمندر کی نذر ہوچکی ہے۔