’اورنج لائن ٹرین منصوبہ اینٹی کیوٹیس ایکٹ کی خلاف ورزی‘
اسلام آباد: پینتالیس ارب روپے کے اورنج لائن میٹرو ٹرین (او ایل ایم ٹی) پروجیکٹ کے حوالے سے نیسپاک کی ماحولیاتی جانچ کی رپورٹس کی صداقت کی تصدیق سے متعلق ماہرین کی رپورٹ میں منصوبے کو، آثار قدیمہ کے حوالے سے 1975 کے اینٹی کیوٹیس ایکٹ (Antiquities Act, 1975) کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
علم آثار قدیمہ کے ماہر پروفیسر روبن کوننگھم کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق ’اس منصوبے پر عملدرآمد کے دوران اینٹی کیوٹیس ایکٹ کے تحت تحفظ شدہ کم از کم 5 غیر منقولہ آثار قدیمہ کے 200 فٹ کے اندر نئی تعمیر شامل ہے۔‘
14 اکتوبر کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جولائی 2015 اور فروری 2016 میں ہونے والی دو ماحولیاتی جانچ کی صداقت کے لیے Messers TYPSA-Asian Consulting Engineers (Pvt) Ltd اور پروفیسر روبن کوننگھم پر مشتمل کمیشن مقرر کیا تھا۔
نیسپاک کی جولائی 2015 اور فروری 2016 کی رپورٹ کا، اینٹی کیوٹیس ایکٹ 1975 اور پنجاب اسپیشل پریمیسز پریزرویشن آرڈیننس 1985 کے تناظر میں پنجاب حکومت پر انحصار تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اورنج ٹرین منصوبہ: کیا سپریم کورٹ تاریخی ورثہ بچائے گی؟
عدالت عظمیٰ نے پنجاب حکومت، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی اور نیسپاک کی جانب سے، لاہور ہائی کورٹ کے ثقافتی ورثہ رکھنے والے مقامات کے 200 فٹ اطراف میں تعمیر معطل کرنے کے حکم خلاف ایک جیسی، لیکن علیحدہ علیحدہ درخواستوں پر کمیشن مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہ حکم سول سوسائٹی کے رکن کامل خان ممتاز کی جانب سے دائر درخواست پر دیا گیا تھا۔
ثقافتی ورثے کی ان سائٹس میں شالامار گارڈنز، گلابی باغ گیٹ وے، بدوھ کا آوا، چَبرجی، زیب النسا کا مقبرہ، لکشمی بلڈنگ، جنرل پوسٹ آفس، ایوان اوقاف، سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کی عمارت، نابھا روڈ کا سینٹ اینڈریوز پریسبیٹرین چرچ اور بابا موج دریا بخاری کا مزار شامل ہیں۔
اپنی رپورٹ میں پروفیسر روبن کوننگھم نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے تحت اینٹی کیوٹیس ایکٹ کی شق 22 اور 23 کی خلاف ورزی کی گئی، جن کے تحت غیر منقولہ آثار قدیمہ کے 200 فٹ کے اندر نئی ترقیاتی تعمیر ممنوع ہے، جبکہ 5 غیر منقولہ آثار قدیمہ کے قریب اتنے ہی فاصلے پر طویل پُل کی طرح کا کوئی اسٹرکچر بھی تعمیر نہیں کیا جاسکتا۔‘
مزید پڑھیں: اورنج لائن ٹرین منصوبے کی زد میں 11 ثقافتی ورثے
رپورٹ کے مطابق ’نیسپاک نے جولائی 2015 کی اپنی جانچ رپورٹ میں دو ممکنہ طور پر متاثرہ عمارتوں پر پُل کی تعمیر کے لیے کھڑے کیے جانے ستونوں سے پیدا ہونے والی لرزش کے اثر کو نظر انداز کیا۔‘
نیسپاک کی جولائی 2015 کی رپورٹ پانچ ممکنہ طور پر متاثرہ یادگاروں کے استحکام کے حوالے سے جسمانی اور تکنیکی جانچ پیش کرنے میں بھی ناکام رہی تھی۔
پروفیسر روبن کی رپورٹ میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا گیا کہ ’نیسپاک کی رپورٹ اس کی بھی جانچ کرنے میں ناکام رہی کہ جب یہ ستون اپنی عمر پوری ہونے کے بعد ہٹائے جائیں گے تو اس سے پیدا ہونے والی لرزش کے ممکنہ اثرات کیا ہوں گے۔‘
یہ بھی پڑھیں: لاہور میٹرو ٹرین منصوبے کی منظوری
دوسری جانب ٹیپسا کی رپورٹ اورنج لائن میٹرو ٹرین کی حمایت میں نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’نیسپاک کی رپورٹ اسٹرکچرل نقطہ نظر سے بظاہر سنجیدہ اور مکمل ہے اور یادگاری عمارتوں کی حفاظت اور استحکام دونوں حوالوں سے مطابقت رکھتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’نیسپاک کا آثار قدیمہ کی عمارتوں پر لرزش کا اثر معلوم کرنے کا معیار بھی عالمی معیار سے مطابقت رکھتا ہے۔
یہ خبر 2 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
تبصرے (1) بند ہیں