'آصف زرداری اگلے ماہ پاکستان آجائیں گے'
اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے محنت و افرادی قوت سینیٹر سعید غنی نے سابق صدر اور پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے جلد وطن آنے کے اعلان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اگلے ماہ دسمبر میں پاکستان آجائیں گے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'اِن فوکس' میں گفتگو کرتے ہوئے سعید غنی کا کہنا تھا کہ 'ہم سے جب پوچھا جاتا تھا کہ آصف زرداری پاکستان کیوں نہیں آتے تو ہمارا جواب یہی ہوتا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے گئے ہیں اور جب وطن واپس آنا چاہیں گے، آسکتے ہیں'۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں آصف زرداری نے واپس آنے کے فیصلے کو مناسب سمجھا ہے اور وہ دسمبر کے مہینے میں پاکستان آجائیں گے۔
خیال رہے کہ سابق صدر نے گذشتہ روز نجی ٹی وی جیو نیوز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں جلد پاکستان واپس آنے کا عندیہ دیا تھا۔
مزید پڑھیں: آصف زرداری نے 'جلد وطن واپسی' کا عندیہ دیدیا
آصف زرداری نے وطن واپسی کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب پاناما لیکس کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اپنے چار مطالبات تسلیم نہ ہونے پر 27 دسمبر کو لانگ مارچ کی دھمکی دے رکھی ہے۔
پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ حکومت، اپوزیشن کے پاناما بل کو پارلیمنٹ میں منظور کرکے اسے قانونی حیثیت دے تاکہ صحیح انداز میں احتساب ممکن ہوسکے۔
اسی حوالے سے سعید غنی کا کہنا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز سے سپریم کورٹ میں جاری پاناما کیس کی سماعتوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالت اس معاملے پر جلد فیصلہ نہیں دے سکے گی جس کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو امید ہے۔
اس سوال پر کہ جس طرح آصف زرداری نے اپنے انٹرویو میں عدالتی کمیشن کے حوالے سے سوال اٹھایا تو کیا پیپلز پارٹی سپریم کورٹ پر عدم عتماد کا شکار ہے؟ پی پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ ابھی تک تو عدالت یہ فیصلہ نہیں کرسکی کہ اُسے کمیشن بنانا ہے یا خود سے کوئی فیصلہ کرنا ہے اور اگر عدالت کمیشن بنا بھی دے تو ہوسکتا ہے وہ اس قانون کے تحت نہ ہو جس کی ہم بات کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جب تک ایسا قانون نہیں ہوگا کہ جس میں کمیشن کو تحقیقات کے لیے مکمل اختیارات حاصل ہوں، اُس وقت تک وہ ملک سے باہر بھیجی گئی رقم کا پتہ نہیں لگا سکے گا'۔
انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چار مطالبات بھی بہت ہی جامع ہیں جن میں صرف پاناما لیکس کا مسئلہ نہیں، بلکہ لائن آف کنٹرول پر جاری سرحدی کشیدگی اور کشمیر جیسا بڑا مسئلہ بھی زیرِغور ہے، کیونکہ ان مسائل کہ وجہ وزارتِ خارجہ کی ناکامی ہے، لہذا ہمارا مطالبہ بھی یہی ہے کہ ایک متحرک وزیر خارجہ کا تقرر کیا جائے جس کی بات دنیا میں سنی جائے۔
واضح رہے کہ ایک جانب پاناما لیکس کیس اب سپریم کورٹ میں زیرِسماعت ہے تو دوسری طرف سابق صدر آصف علی زرداری کی واپسی کے اعلان سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے، جن میں سے ایک بنیادی سوال اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات سے متعلق ہے۔
لہذا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا زرداری کی واپسی پاناما لیکس پر تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو ایک کرنے میں کامیاب ہوپائے گی یا نہیں۔
سابق صدر نے حالیہ انٹرویو میں یہ بھی واضح کیا کہ وہ مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، لیکن عمران خان کے ساتھ اُس وقت چلیں گے جب وہ سیاست کو سمجھ جائیں گے۔
یہ بھی یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے 17 جون 2015 کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک تقریر کے دوران بظاہر اسٹیبلشمنٹ کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہمیں پریشان نہ کیا جائے، ورنہ اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی'، اپنے اس بیان کے ایک ہفتے کے اندر ہی نامعلوم وجوہات کی بنا پر سابق صدر بیرون ملک روانہ گئے تھے، وہ 25 جون سے دبئی میں مقیم ہیں۔
فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری کا مزید کہنا تھا کہ 'فوج کے جنرل ہر تین سال میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں البتہ سیاستدان ملک میں ہمیشہ رہتے ہیں، لہذا وہ بہتر جانتے ہیں کہ ملک کے معاملات کو کیسے چلانا ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: زرداری کی سیاسی حریفوں اور اسٹیبلشمنٹ پر شدید تنقید
ان کا کہنا تھا وہ ملک کے اداروں کو کمزور نہیں کرنا چاہتے مگر آرمی کو بھی سیاستدانوں کے لیے رکاوٹیں پیدا نہیں کرنی چاہئیں۔
مذکورہ بیان کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی میں تعلقات کشیدہ ہونے کے حوالے سے افواہیں گردش کرنے لگیں اور آصف علی زرداری کے دبئی منتقل ہونے کے بعد کراچی میں جاری آپریشن کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پی پی پی سے تعلق رکھنے والے متعدد وزراء اور دیگر رہنماؤں کو گرفتار بھی کیا، جن پر مختلف الزامات لگائے گئے تھے۔
تاہم، رواں سال مارچ میں ڈان نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ان کے بیانات کو ہمیشہ غلط رنگ دیا جاتا ہے اور یہ کہ وہ کسی سے تصادم نہیں چاہتے اور سسٹم کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'اینٹ سے اینٹ بجانے' والی بات کا اشارہ دراصل فوج کی جانب نہیں تھا بلکہ مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب تھا، کسی اور کی 'اینٹ سے اینٹ' نہیں بج سکتی۔
تبصرے (1) بند ہیں