بھارتی آبدوز کو پاکستانی سمندر سے باہر کیسے دھکیلا گیا؟
پاک بحریہ نے 18 نومبر کو پاکستانی سمندری علاقے میں بھارتی آبدوز کی موجودگی کا سراغ لگا کر اسے اپنی سمندری حدود سے نکال باہر کرنے کا انکشاف کیا۔
ان حالات میں کہ جب نئی دہلی کی جانب سے اس خبر کی تردید کی جاچکی ہے پاکستانی دفاعی تجزیہ کار خیال ظاہر کرتے ہیں کہ یہ آبدوز خفیہ معلومات اکھٹا کرنے کے مقصد سے پاکستانی سمندری علاقے میں اور اس کے آس پاس موجود تھی، واضح رہے کہ اس آبدوز کے سامنے آنے کا وقت اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے گوادر کی بندرگاہ سے پہلے بیڑے کے روانہ ہونے کا وقت تقریباً ایک ہی ہے۔
ماہر اینٹی سب میرین، ریٹائرڈ کموڈر ظفر اقبال خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ آبدوز شاید ساحل کے نزدیک پہنچ کر دہشت گرد گروہوں تک تخریب کاری کے لیے اسلحہ فراہم کرنے کی کوشش میں ہو۔
خفیہ آپریشنز میں آبدوز کا استعمال
خصوصی آپریشنل پیرامیٹرز کی وجہ سے آبدوزوں کو اس قسم کی کارروائیوں کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے۔
چونکہ بھارتی بحریہ کا آبدوزوں کے ذریعے باقاعدہ خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کا کوئی نظام نہیں، ایک امکان یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ مشن ان 15 میں سے کوئی ایک آبدوز انجام دے رہی تھی جو بھارتی بحریہ کی زیر سمندر بیڑے کا حصہ ہے۔
مزید پڑھیں: بھارتی آبدوز کی پاکستانی حدود میں داخل ہونے کی کوشش
تاہم، چند آبدوزوں کے خراب یا مرمت کے لیے بھیجے جانے کی باعث بھارتی بحریہ کی موجودہ آپریشنل صلاحیت 15 آبدوزورں سے کم ہے، جبکہ بیڑے میں موجود چند آبدوزیں اپنی آپریشنل لائف کا 75 فیصد گزار چکی ہیں۔
بھارتی بحریہ کی آبدوزوں کا یہ بیڑہ ممبئی کے مغربی حصے اور وساکھاپتنم کے مشرقی ساحل پر موجود ہوتا ہے۔
صلاحیت
1980 میں لانچ کی جانے والی بھارتی بحریہ کے آبدوزوں کا بیڑہ 10 ڈیزل الیکٹرک کلو کلاس پر مشتمل ہے جسے بھارتی بحریہ میں ’سندھوگوش کلاس‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
بھارتی نیوی میں ایٹمی توانائی سے لیس ایکولا کلاس کشتی بھی شامل ہے، جسے روسی فیڈریشن سے 10 سال کی لیز پر بھارتی بحریہ کے بیڑے میں شامل کیا گیا تھا۔
پاک بحریہ کی جانب سے محدود کی جانے والی بھارتی آبدوز کے بارے میں بھی یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ سندھو گوش کلاس کی آبدوز تھی، اس آبدوز کی زیادہ سے زیادہ رفتار 18 ناٹس کے قریب ہے اور یہ 800 فیٹ گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہے، رپورٹ کے مطابق، 53 افسروں اور ملاحوں سے لیس یہ آبدوز تقریباً 45 دن تک زیر سمندر رہ سکتی ہے۔
ڈیزل الیکٹرک آبدوزیں کھوج میں نہ آنے کے سبب اپنا مشن جاری رکھتی ہیں اور توانائی کا بہترین بچاؤ کرتے ہوئے آواز نہ کرنے کے سخت اصول پر کاربند رہتی ہیں، لیکن ان آبدوزوں کو معمول کے مطابق سطح پر آنا پڑتا ہے یا بیٹریز کو چارج کرنے کے لیے آبدوز کو اسنارکلنگ کی گہرائی تک لانا پڑتا ہے۔
جب تک آبدوز کی بیٹری چارج نہ ہوجائے اسے حرکت میں رہنے اور توانائی حاصل کرنے کے لیے ڈیزل انجن پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
آبدوزوں کے کمانڈر، وائس ایڈمرل ریٹائرڈ تسنیم کہتے ہیں کہ ’انڈین آبدوز کے پیری اسکوپ سطح تک آنے کی وجہ شاید اس کی بیٹریز کا خشک ہوجانا تھا اور اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ سطح پر آکر بیٹریز کو چارج کرے‘۔
کیا انکشاف ہوا؟
اس مخصوص معاملے میں امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ آبدوز اسنارکلنگ کے دوران پہچان کے قابل ہوئی اور پکڑ میں آئی، جس کے بعد پاکستان بحریہ کے اینٹی سب میرین وارفیئر (اے ایس ڈبلیو) نے اس کی کھوج لگائی یا ریڈار اور سونار سے اس کی اطلاع حاصل کی۔
سونار جہاز سے آنے والی آواز کی لہروں کو واپس بھیجتا ہے جبکہ ریڈار سمندر کی سطح پر یا زیرِ سطح ہونے والی کسی بھی تبدیلی کوکھوج سکتا ہے، آبدوز کے ایک بار پکڑ میں آنے کے بعد اے ایس ڈبلیو کی خصوصی ٹیم اور حدود میں داخل ہونے والی آبدوز کے درمیان چوہے بلی کا کھیل شروع ہوجاتا ہے جو آبدوز کے مقام کی معلومات تک رسائی حاصل کرنے تک جاری رہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میری ٹائم ڈاکٹرائن کی تیاری میں مصروف
اگر بھارتی آبدوز اسنارکلنگ کے بعد پانی میں واپس چلی بھی گئی تھی تو پاک بحریہ اے ایس ڈبلیو کو اس کی موجودگی کا اندازہ ہوچکا تھا اور یہ معلومات سرفیس یونٹس کو فراہم کرنے کے بعد آبدوز کی تلاش اور مقام کی نشاندہی کا آغاز کردیا گیا۔
ایڈمرل تسنیم کے مطابق، آبدوز اسنارکلنگ کررہی تھی کیونکہ اسے علم ہوگیا تھا کہ اسے کھوجا جاچکا ہے اور بیٹری کو مزید ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
حاصل ہونے والی معلومات کا استعمال کرتے ہوئے اے ایس ڈبلیو کے ہیلی کاپٹرز اور جہاز جن میں پی 3سی اوریون اور اٹلانٹک شامل ہیں، ان کی جانب سے سونوبوائز گرا کر آبدوز کو گھیرے میں لیا گیا ہوگا جبکہ ہیلی کاپٹروں سے بھیجے گئے سونارز کی مدد سے بھی سونار پنگس کی معلومات حاصل کی گئی ہوگی۔
اسی معاملے سے جڑے ذرائع نے تصدیق کی کہ آبدوز کی موجودگی کو پہلے اے ایس ڈبلیو نے محسوس کیا جس کے بعد تلاش میں سرفیس یونٹس بھی شامل ہوگئیں۔
پاک بحریہ کی جانب سے کی جانے والی اس ساری کارروائی کا اندازہ بھارتی آبدوز نے بھی لگالیا ہوگا جس سے انہیں اپنے پکڑے جانے کی تصدیق ہوگئی۔
پاک بحریہ کے علم میں آجانے کے بعد آبدوز کے عملے کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ پلٹ کر اپنی بندرگاہوں کی جانب لوٹ جائیں اور پاکستانی اے ایس ڈبلیو نے بھی اپنا گھیرا اس وقت تک برقرار رکھا ہوگا جب تک آبدوز کا پاکستانی علاقے سے نکل جانے کا یقین نہیں ہوگیا۔
آبدوزوں سے جڑی تمام کارروائیاں مہارت، تربیت اور حاضر دماغی کا نچوڑ ہوتی ہیں، ایسی صورتحال میں جو فریق اپنے اعصاب پر قابو پالے وہی برتری لے جاتا ہے۔