شام کی جنگ : تنازع الجھتا جا رہا ہے
شام میں جاری خانہ جنگی کو 6 سال گزر چکے ہیں، مگر جنگ اب بھی جاری ہے، جبکہ دمشق حکومت کو یقین ہے کہ آخر میں جیت ان کی ہی ہوگی، کیونکہ شامی فوج کو باغیوں کے خلاف لڑنے کے لیے روس کی فوج کی مدد حاصل ہے۔
دیکھا جائے تو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شامی تنازع حل ہونے کے بجائے مزید الجھتا جا رہا ہے، دمشق انتظامیہ کے مطابق شامی سرزمین پر 85 مختلف گروپ جنگ لڑ رہے ہیں۔
شامی حکومت کے لیے خوش آئندہ بات یہ ہے کہ اس کا ملک کے 50 فیصد علاقوں پر کنٹرول ہے، اسلامک اسٹیٹ ( داعش ) کا 25 فیصد جب کہ باقی علاقے مختلف جہادی اور باغیوں کے زیر اثر ہیں، دمشق سے تعلق رکھنے والے صحافی علی ابراہیم کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ اس کے پاس زیادہ آبادی والے علاقوں کا کنٹرول ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شام میں 'بربریت' کے الزامات پر روس برہم
دمشق انتظامیہ کے ذرائع سے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق شامی سرزمین پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے مختلف سنی و شیعہ گروپ بھی دونوں طرف سے لڑ رہے ہیں،شامی سرزمین پر لڑنے والے پاکستانیوں کو ایرانی شہر قم میں مذہبی عبادات کے دورے کے دوران بھرتی کرکے شام بھیجا گیا۔
ذرائع کے مطابق ایران سے بھرتی کرکے شام بھیجے جانے والے تمام پاکستانی افراد کا ریکارڈ ایرانی شہر قم میں موجود ہوتا ہے، انتظامیہ نے ان افراد کی گفتگو کے ایسے سگنلز پکڑے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ شام میں لڑنے والے زیادہ تر پاکستانی شیعہ افراد میں سرائیکی، پختون اور اردو بولنے والے شامل ہیں، جب کہ سنی جنگجوؤں کی اکثریت جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتی ہے۔
پاکستانی جنگجو دونوں طرف سے جنگ میں شریک ہیں، کچھ باغیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، کچھ حکومت کے خلاف محاذ میں شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: شام میں روسی کارروائی،امریکا کو تشویش
مغربی طاقتیں طویل عرصے سے شامی صدر بشارالاسد کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہی ہیں، مغربی قوتوں کے مطابق شامی حکومت نہ صرف لوگوں کو محصور کرکے انسانی آفت کو تقویت بخش رہی ہے بلکہ اسد حکومت لوگوں پر سیاسی جبر بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق شام میں موجود حراستی مراکز میں سال 2011 سے اب تک 17 ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔
شام میں کئی سالوں سے مسلسل تصادم جاری ہے، جنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ برا اثر معاشی شہر حلب پر ہوا ہے، ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی والے اس شہر میں مسلسل بمباری ہوتی رہتی ہے، روسی فوج نے مسلسل بمباری اور حملوں کے بعد شہر کے مشرقی حصے کو باغیوں سے واپس لے لیا ہے، حلب شہر پر مکمل حکمرانی شامی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
حلب ایک تاریخی شہر ہے، یہاں قدیم ترین بازار بھی موجود ہے، جو مسلسل بمباری کی وجہ سے کھنڈر میں تبدیل ہوگئی ہے، باغی نشانہ بازوں نے تاریخی شہر کے راہ چلتے لوگوں پر گولیاں برسا کر شہر کو خالی کرایا، جس کے بعد خوف کے باعث یہاں کاروباری سرگرمیاں ختم ہوگئیں اور اب حلب میں ہر جگہ جنگی ملبہ نظر آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران ،افغان مہاجرین کو شام بھیج رہا ہے:ایچ آر ڈبلیو
شامی پارلیمنٹ کے رکن اور چیمبر آف انڈسٹری کے چیئرمین فارس شہبائی کے مطابق حلب میں ہزاروں فیکٹریاں چلتی تھیں، اب صرف دس فیصد فیکٹریاں چل رہی ہیں۔
گزشتہ سال جولائی میں بشار الاسد نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ شامی فوج تشویش ناک صورتحال کا سامنا کرنے کی وجہ سے اپنی زیر اثر کچھ حدود سے انخلاء کر رہی ہے، شامی صدر کی جانب سے اس اعلان کے بعد روسی فوج نے شامی صدر کی درخواست میں شامی جنگ میں مداخلت کی تھی، جس کے بعد شامی فوج کی طاقت میں اضافہ ہوا اور انہوں نے اپنے علاقے واپس لینا شروع کیے۔
کھنڈرات میں تبدیل ہوتا ملک
شام میں جاری خانہ جنگی نے ملک میں کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے، شام سے متلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسٹافن دی مستورا کے مطابق شام میں خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ افراد ہلاک جب کہ ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں، خانہ جنگی کی وجہ سے لوگوں نے اپنے گھر اور گائوں خالی کردئیے ہیں، اب رہائشیوں سے زیادہ وہاں باغی موجود ہیں۔
شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران صدر بشار الاسد کو روسی جیسی عالمی طاقت کے علاوہ ایران، عراق، افغانستان، لبنان کی حزب اللہ تنظیم کے جنگوجوؤں کی مدد حاصل ہے، جب کہ اسد کے خلاف ترکی کے کرد، خلیجی ممالک اور سعودی عرب کے سنی عرب جنگ لڑ رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:شام: بم دھماکے میں اپوزیشن وزیر سمیت 12 ہلاک
شامی انتظامیہ کے مطابق شام میں جاری خانہ جنگی پراکسی وار میں تبدیل ہوچکی ہے، جس میں کئی بیرونی طاقتیں ملوث ہیں، اس وقت شامی حکومت کی توجہ شام ترکی سرحد پر موجود کردش اکثریت والے علاقے روجاوا اور رقہ کا کنٹرول حاصل کرنے پر ہے، اس وقت روجاوا پر ترکش کردوں اور رقہ پر داعش کی گرفت مضبوط ہے۔
امریکا نے عراق اور شام میں داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگوں کو ٹریننگ دینے کے لیے اربوں روپےمختص کیے لیکن بعد میں امریکا یہ منصوبہ منسوخ کرکے 15 ہزار باغیوں پر مشتمل ایک گروپ تیار کرنا پڑا، باغیوں کے اس گروپ کو لڑنے کے لیے اسلحہ سمیت تمام سہولیات امریکا نے فراہم کیں، مگر تاحال اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
یاد رہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے شام کے لاکھوں لوگ اپنی زندگیاں بچا کر یورپ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی جانب سفر کرنے پر مجبور ہیں، اس وقت شامی مہاجرین کا مسئلہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے، جرمنی، برطانیہ، یونان اور ترکی سمیت کئی ملکوں میں شامی مہاجرین کی آبادی سے متعلق اختلافات چل رہے ہیں۔
جرمنی نے سب سے زیادہ شامی مہاجرین کو پناہ دینے کا اعلان کر رکھا ہے، جس وجہ سے جرمن چانسلر اینجیلا مرکل کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
یہ رپورٹ 18 نومبر کو ڈان میں شائع ہوئی