ترک عملے کی بے دخلی، والدین اور طلبہ پریشان
اسلام آباد /لاہور/ کراچی: وزارت داخلہ کی جانب سے پاک ترک اسکولز کے ترک عملے کو 20 نومبر تک ملک چھوڑنے کے حکم کی خبر سنتے ہی کئی والدین پریشان ہوکر ملک بھر میں موجود پاک ترک انٹرنیشنل اسکولز کے دفاتر پہنچ گئے۔
لاہور میں پاک ترک اسکول میں زیر تعلیم دو بچوں کے والد نے بتایا کہ ’ہمیں کہا گیا ہے کہ اسکولز بند نہیں کیے جائیں گے تاہم نئی انتظامیہ آجائے گی‘۔
ایڈووکیٹ حافظ عرافات کے دو بچے اسلام آباد میں پاک ترک اسکول میں زیر تعلیم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں حکومتی فیصلے نے تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے بچے یہاں 8 برس سے پڑھ رہے ہیں، مجھے یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ ترک حکومت ان اسکولز پر فتح اللہ گولن کے نظریات کی حمایت کا الزام لگارہی ہے، ہم نے کبھی اسکول کوئی نامناسب سرگرمی نہیں دیکھی‘۔
یہ بھی پڑھیں: طیب اردگان ریکارڈ تیسری بار پارلیمنٹ سے خطاب کریں گے
انہوں نے کہا کہ بچوں کو یہ سمجھانا مشکل ہوگا کہ سیاسی فیصلے کی وجہ سے ان کے ٹیچرز کو نکال دیا گیا جن کے ساتھ کئی برسوں میں ان کا ایک رشتہ قائم ہوچکا ہے۔
اسلام آباد میں پاک ترک اسکول میں زیر تعلیم بچوں کے والد سید علی نے حکومتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’مسلمانوں کے ساتھ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ہم تعلیم کو سیاست سے جوڑ دیتے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسکولوں کے خلاف کارروائی سے ترکی کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
یاد رہے کہ اگست کے مہینے میں پاکستان نے پاکستان کا دورہ کرنے والے ترک وزیر خارجہ میلود چاووش اوغلو سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاک ترک اسکولز کے معاملے پر غور کرے گا جسے ترکی نے امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن سے روابط کا الزام عائد کرکے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد 1995 سے پاکستان میں مقیم ترک شہریوں کو محض چند روز کے اندر اندر اپنا سامان لپیٹنا ہوگا۔
مزید پڑھیں: پاک ترک اسکولز کے عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم
گزشتہ روز لاہور کے پاک ترک اسکولز میں کار ڈیلرز کو طلب کیا گیا تاکہ ان گاڑیوں کو فروخت کیا جاسکے تو ترک عملے کے زیر استعمال تھیں۔
لاہور کے پاک ترک اسکول میں انتظامی عہدے پر خدمات انجام دینے والے ایک ترک ٹیچر نے بتایا کہ ’ہمیں ملک چھوڑنے کے لیے محض 72 گھنٹوں کا وقت دیا گیا جس کی وجہ سے ہم اپنی گاڑیاں کم قیمت پر بیچنے پر مجبور ہیں، یہ نا انصافی ہے‘۔
ترک عملے کی تمام امیدیں عدلیہ سے وابستہ ہیں کہ وہ ان کی وطن واپسی کے احکامات کو روک دے گی
انہوں نے بتایا کہ ’سرکاری عہدے داروں نے ہمارے فون کا جواب دینا بند کردیا ہے تاہم ہمیں بتایا گیا ہے کہ اگر ہم نے 20 نومبر تک ملک نہ چھوڑا تو ہمیں گرفتار کرلیا جائے گا‘۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہمیں خدشہ ہے کہ ترکی واپس پہنچنے پر ہمیں حراست میں لیا جاسکتا ہے‘۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ترک خاتون ٹیچر نے مطالبہ کیا کہ وہ جاننا چاہتی ہیں کہ حکومت پاکستان بغیر کسی الزام کے کس طرح انہیں ملک سے نکل جانے کا کہہ سکتی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ ’میں اور میرے شوہر 11 برس قبل یہاں آئے تھے، میرا سب سے چھوٹا بیٹا ڈیڑھ سال پہلے یہیں پیدا ہوا، وہ کبھی ترکی نہیں گیا،پاکستان ہی اس کا ملک ہے‘۔
ایک اعلیٰ سرکاری عہدے دار نے ڈان کو بتایا کہ چند دنوں میں ترک صدر طیب اردگان کی حکومت کی ایک ٹیم یہاں آئے گی اور پاکستان میں پاک ترک تعلیمی اداروں کا کنٹرول سنبھالے گی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان چھوڑنے کے حکم پر ترک اساتذہ کا عدالت سے رجوع
انہوں نے بتایا کہ ترک حکومت سے وابستہ ایک تنظیم اب پاک ترک اسکولز اور کالجز کے امور کی نگرانی کرے گی، نواز شریف کی حکومت پر ترک صدر طیب اردگان کی آمد سے قبل ترک ٹیچرز اور ان کے اہل خانہ کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے شدید دباؤ تھا۔
کراچی میں قائم پاک ترک انٹرنیشنل اسکولز کی انتظامیہ صحافیوں سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہی تھی۔
شیریں جناح کالونی میں قائم برانچ کے ایک انتظامی عہدے دار نے بتایا کہ انہوں نے ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے لہٰذا وہ میڈیا سے بات نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم پر امن طریقے سے گزشتہ 21 برسوں سے کام کررہے ہیں، افسوس کی بات ہے کہ ہماری نیت پر شک کیا گیا‘۔
یہ کہا جارہا ہے کہ حکومت کی حامی ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ’معارف‘ جس کا قیام ترکی میں تین ماہ قبل عمل میں آیا ہے ، پاکستان میں پاک ترک اسکولوں کا انتظام سنبھالے گی۔
عہدے دار نے بتایا کہ غیر یقینی صورتحال کے باوجود اسٹاف ممبرز خود زدہ نہیں ہیں اور نہ وہ قانونی جنگ لڑے بغیر انتظامیہ امور کسی اور کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اسلام آباد کے ایچ 8 کیمپس کے طلبہ نے پر نم آنکھوں کے ساتھ اپنے ترک ٹیچرز کو الوداع کہا، کئی طالب علموں کو خدشہ ہے کہ نہ جانے ترکی پہنچنے کے بعد ان کے ٹیچرز کے ساتھ کیا ہوگا۔
لاہور کے رائے ونڈ کیمپس میں 11 سالہ فاطمہ(فرضی نام) پانچویں کلاس کی طالبہ ہے جو گزشتہ روز اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ آخری بار کلاس میں بیٹھی۔
وہ تین سال کی تھی جب اپنے والدین کے ساتھ پاکستان آئی تھی جو اسکول کے تدریسی اور انتظامی عہدوں پر فائز ہیں، فاطمہ روانی سے اردو بولتی ہے اور وہ پاکستان کو ہی اپنا گھر کہتی ہے۔
فاطمہ کو اب بھی امید ہے کہ شائد کل صبح وہ اٹھے اور اسے لگے کہ جو کچھ بھی ہورہا تھا وہ ایک ڈراؤنا خواب تھا۔
یہ خبر 17 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (2) بند ہیں