• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

’کچرا جلانا ضروری تو توانائی کیلئے جلایا جائے’

شائع November 14, 2016
وفاقی دارالحکومت میں روزانہ 300 سے 500 گاڑیاں رجسٹر ہوتی ہیں جن سے خارج ہونے والا دھواں آلودگی کی اہم وجہ ہے — فوٹو: آن لائن
وفاقی دارالحکومت میں روزانہ 300 سے 500 گاڑیاں رجسٹر ہوتی ہیں جن سے خارج ہونے والا دھواں آلودگی کی اہم وجہ ہے — فوٹو: آن لائن

اسلام آباد: پنجاب کے چند شہروں میں ہونے والی حالیہ بارشوں کے نتیجے میں صوبے بھر پر چھائی اسموگ کی چادر میں کافی حد تک کمی آئی ہے تاہم یہ مسئلہ برقرار رہنے اور ہرسال اس میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے جس کی بڑی وجہ زراعت کے شعبے میں ہونے والی تبدیلیاں، گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ اور زرعی اور ٹھوس کچرے کا جلایا جانا شامل ہے۔

درجہ حرارت کی کمی کے نتیجے میں دھول، کیمیکلز، کاربن، سلفر اور لیڈ کے نم ہوا میں تحلیل ہونے سے پیدا ہونے والی اسموگ سانس لینے کے ساتھ انسانی جسم میں داخل ہونے پرآنکھ، ناک اور سینے میں تکلیف کا باعث بن سکتی ہے۔

اس صورتحال میں ماہرینِ ماحولیات آلودگی سے متعلق قوانین کو فی الفور عائد کرنے، شہروں میں ماس ٹرانزٹ سسٹم متعارف کرانے جبکہ کچرے کو جلانے کے بجائے توانائی پیدا کرنے کے لیے اس کے استعمال کی تجویز دیتے ہیں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد عرفان خان کا کہنا تھا کہ ماضی میں لوگ فصلوں کے بعد حاصل ہونے والے کچرے کو جانوروں کے چارے کے طور پراستعمال کیا کرتے تھے، جبکہ گندم سے حاصل ہونے والے کچرے کو مٹی کے گھر بنانے میں استعمال کیا جاتا تھا، لیکن اب معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں اور جدت کے بعد مٹی کے گھروں کا رواج ختم ہوچکا ہے اور لوگ جانورں کو کھلانے کے لیے بھی تیارشدہ چارہ خرید لیتے ہیں، اس لیے کسان اس کچرے سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے اسے جلا دیتے ہیں جو آلودگی میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسموگ کی لہر دسمبر تک جاری رہے گی:چیف میٹرولوجسٹ

ڈاکٹر محمد عرفان نے مزید بتایا کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک کے صوبہ پنجاب میں زراعت عام ہے اور اسی لیے یہ صوبے آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، یاد رہے کہ ہندوستان کا شہر دہلی 1905 تک پنجاب کا دارالحکومت تھا جبکہ اسلام آباد کے کچھ علاقے بھی 1963 تک پنجاب کا حصہ تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کچرے کوکھیتوں میں چھوڑ دیا جائے تو وہ زمین کی زرخیزی میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے لیکن جب اسے جلادیا جاتا ہے تو یہ کچرا کاربن میں تبدیل ہوجاتا ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ زرعی کچرے کو جلانا بند کیا جانا چاہیئے اور زیادہ سے زیادہ درخت اگانے کا آغاز کیا جانا چاہیئے، اس کے علاوہ شہروں میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پانے کے لیے ماس ٹرانزٹ سسٹم بھی متعارف کیا جانا چاہیئے۔

مزید پڑھیں: پاکستان فضائی آلودگی کا شکار چوتھا بدترین ملک

صنعتوں سے فضا میں آلودگی کے بڑھتے ہوئے خدشے پر ان کی تجویز تھی کہ صنعتوں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیا جانا چاہیئے تاکہ آلودگی کو کم کیا جاسکے، اس سلسلے میں ایلوویرا جیسے پودوں کو زیادہ سے زیادہ اگایا جانا چاہیئے،جو آلودگی کی شدت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد عرفان نے بتایا کہ جڑواں شہروں یعنی اسلام آباد اور راولپنڈی میں موجود دھول کئی ہفتوں سے نہ ہونے والی بارش کی وجہ سے فضا ہی میں موجود ہے۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر جاوید چشتی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے ملک میں کچرے کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے غیر مناسب انتظامات کی جانب اشارہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں آلودہ دھند کی وجہ کیا؟

ان کا کہنا تھا کہ ہر صبح شہر میں بیشتر مقامات پر کچرے کو جلتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں میں سانس کی اور دیگر بیماریوں کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے، فضا میں اسموگ اور دیگر آلودگی پھیلانے والے عناصر کی موجودگی کے باعث زمین سے پانی کے بخارات آسمان تک نہیں پہنچ پاتے اور جو بخارات پہنچ بھی جائیں وہ آلودگی کی وجہ سے پانی کی بوندوں میں تبدیل ہو کر برس نہیں پاتے، یہی وجہ ہے کہ شہر میں بارشیں نہیں ہورہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کچرا جلانا ضروری ہے تو اسے توانائی کے حصول کے لیے جلایا جانا چاہیئے، آرگینک فضلے کو اگر درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو ہم اتنی گیس پیدا کرسکتے ہیں جو ملک کے بڑے حصے کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں روزانہ 300 سے 500 گاڑیاں رجسٹر ہوتی ہیں جبکہ لاہور میں یہ تعداد 1000 تک ہے، ترقی یافتہ ممالک میں پرانی گاڑیوں کو ایک مخصوص عرصے بعد ختم کردیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اب بھی بہت پرانی گاڑیوں کا استعمال جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے تحت دھواں اڑاتی گاڑیوں کو 60 روز کے لیے ضبط کرلیا جانا چاہیئے لیکن اس قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔

یہ خبر 14 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024