امداد علی کی ذہنی حالت جانچنےکیلئے میڈیکل بورڈ کی درخواست منظور
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے سزائے موت کے مجرم امداد علی کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے 5 ماہرِ ذہنی امراض کے نام مانگ لیے۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے امداد علی کی پھانسی روکنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے امداد علی کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست منظور کرلی۔
اس موقع پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پھانسی ملتوی تو کی جا سکتی ہے لیکن سزا ختم نہیں کی جاسکتی۔
واضح رہے کہ عدالت پہلے ہی امداد علی کی پھانسی روکنے سے متعلق حکم امتناع دے چکی ہے۔
سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران امداد علی کی اہلیہ کی درخواست پر ان کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد روک دیا تھا۔
مزید پڑھیں:ذہنی معذور امداد علی کی پھانسی روک دی گئی
آج سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'ہم نے امداد علی کے مرض کے علاج سے انکار نہیں کیا، لیکن ہمارے پاس کوئی مضبوط شواہد نہیں کہ امداد علی ذہنی مریض ہے۔'
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ 'پاکستان میں جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ بنانے عام سی بات ہے اور ایسا سرٹیفکیٹ 100 روپے میں ہر جگہ مل جاتا ہے۔'
سماعت کے دوران معزز جج کا کہنا تھا کہ ٹرائل جج کے سامنے امداد علی نے تمام سوالات کے درست جوابات دیئے تھے، لہذا دوبارہ ٹرائل کورٹ میں کیس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ نے امداد علی کی پھانسی کے حوالے سے ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ 'امداد علی روحانیت میں چلا گیا ہے'، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'جب بے گناہ لوگوں کا قتل کیا جاتا ہے تو روحانیت آ ہی جاتی ہے۔'
اس موقع پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے امداد علی کی پھانسی رکوانے کے سلسلے میں کچھ این جی اوز اور اداروں کے سرگرم ہونے کے حوالے سے بھی استفسار کیا۔
یہ بھی پڑھیں:ذہنی معذور شخص کی پھانسی کے خلاف احتجاج
یاد رہے کہ 50 سالہ امداد علی کو 2002 میں ایک عالم دین کو قتل کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی، جس کے بعد انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کی پھانسی رکوانے کے لیے سرگرم تھیں۔
امداد علی کی پھانسی کے خلاف سرگرم عمل انسانی حقوق کی تنظیم جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) کا کہنا تھا کہ 'امداد علی ذہنی طور پر معذور اور 'پیرانائیڈ شیزوفرینیا' کا شکار ہے اور کئی سالوں سے اس کا مناسب علاج نہیں کروایا گیا'، لہذا پاکستان کو شیزوفرینیا کے شکار ایک ذہنی معذور شخص کو سزائے موت نہیں دینی چاہیے۔
امداد علی کو رواں برس 20 ستمبر کو سزائے موت ہونی تھی تاہم تاہم جے پی پی کی جانب سے دائر درخواست کے بعد سپریم کورٹ نے اسے موخر کردیا تھا، بعدازاں سپریم کورٹ نے جے پی پی کی درخواست خارج کردی تھی۔
مزید پڑھیں:ذہنی معذور شخص کی پھانسی کا فیصلہ برقرار
سپریم کورٹ نے امداد علی کی پھانسی کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کہا تھا کہ شیزوفرینیا کوئی مستقل ذہنی بیماری نہیں ہے۔
جس کے بعد امداد علی کی پھانسی کے لیے 2 نومبر کے احکامات جاری کیے گئے تھے اور انھیں وہاڑی جیل میں پھانسی دی جانی تھی، تاہم امداد کی اہلیہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کی گئی، جس پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا۔