• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

مارچ یا اپریل 2017 میں مردم شماری کا امکان

شائع November 10, 2016

اسلام آباد: قومی مفادات کونسل (سی سی آئی) کے آئندہ اجلاس میں اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ مارچ یا اپریل 2017 میں مردم شماری کے انعقاد کی منظوری دے دی جائے۔

سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ’ایک سمری بھیجی گئی ہے جس میں مردم شماری کے معاملے کو سی سی آئی کے آئندہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کرنے کی درخواست کی گئی ہے جبکہ یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ مردم شماری روایتی طریقہ کار کے ذریعے کیے جائیں اور مسلح افواج کی دستیابی سے مشروط کیے جائیں‘۔

تاہم رپورٹ میں یہ نہیں کہا گیا کہ سی سی آئی کا آئندہ اجلاس کب ہوگا۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ مردم شماری کے انعقاد میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کررہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں مردم شماری موخر کرنے کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے آرمی کو ہدایت کی تھی کہ وہ سیکیورٹی اور گنتی کے فرائض انجام دینے کے لیے 42 ہزار اہلکاروں کی فراہمی کے لیے تیار رہے۔

حکومتی نکتہ نظر سے نالاں سپریم کورٹ 18 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ آئندہ سماعت میں مردم شماری کی حتمی تاریخ اور اس عمل کے مکمل ہونے کا ٹائم فریم لے کر آئے۔

اب دو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ادارہ برائے شماریات نے موقف اختیار کیا کہ اس نے کاغذی سوالات پر مبنی روایتی طریقہ کار کے ذریعے مردم شماری کے انعقاد کے لیے تیاریاں مکمل کرلی ہیں جبکہ جمع ہونے والے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی جس سے کم سے کم وقت میں یہ عمل مکمل ہوسکے گا۔

سی سی آئی کے فیصلے کے تناظر میں ادارہ برائے شماریات نے ماضی میں ڈائریکٹوریٹ آف ملٹری آپریشنز کے ساتھ کئی اجلاس کیے تھے جن میں مردم شماری کے لیے درکار افرادی قوت کے معاملے پر غور کیا جاتا رہا۔

مزید پڑھیں: مردم شماری میں تاخیر پر چیف جسٹس کا ازخود نوٹس

اجلاسوں میں یہ بات سامنے آئی کہ 2 لاکھ 88 ہزار فوجی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ سویلین رضاکاروں کی بھی ضرورت ہوگی جبکہ سیکیورٹی اینڈ کمانڈ اسٹرکچر بھی بنانا ہوگا۔

اب ڈائریکٹوریٹ نے حامی بھری ہے کہ مردم شماری کا عمل مرحلہ وار مکمل ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں ایک وقت میں درکار افرادی قوت کی تعداد بہت حد تک کم ہوجائے گی جبکہ اس بات کا اشارہ بھی دیا ہے کہ وہ مرد شماری کے لیے 42 ہزار آرمی اہلکار بھی فراہم کرے گی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈیٹا جمع کرنے کے لیے ڈیجیٹل ٹیبلٹس، ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر کے استعمال پر غور اور مجموعی اخراجات کے ساتھ ساتھ ٹائم فریم پر بھی کام مکمل کرلیا گیا ہے۔

رپورٹ میں یاد دہانی کرائی گئی کہ 25 مارچ کو ہونے والے اجلاس میں سی سی آئی نے مردم شماری کے انعقاد کی تیاریوں کا جائزہ لیا تھا اور فیصلہ کیا تھا کہ اس کا انعقاد 2016 میں ہی ہوگا تاہم یہ مسلح افواج کے اہلکاروں کی دستیابی سے مشروط ہوگا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ ڈائریکٹوریٹ آف ملٹری کے ساتھ مل کر مختلف پہلوؤں پر غور کیا گیا تاہم ڈائریکٹوریٹ کا یہ کہنا ہے کہ فوجی حکام کی جانب سے رواں سال اتنی بڑی تعداد میں فوجی اہلکار فراہم نہیں کیے جاسکتے کیوں کہ فوج پہلے ہی مختلف سیکیورٹی آپریشنز جیسے ضرب عضب وغیرہ میں مصروف ہے۔

بہرحال رپورٹ میں کہا گیا کہ آئندہ چند ماہ میں سیکیورٹی اہلکاروں کی دستیابی کے معاملے پر دوبارہ غور کیا جائے گا جس کے بعد فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کے لیے کم سے کم تین ماہ درکار ہوں گے۔

یہ خبر 10 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024