• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

'آرمی چیف عمران خان یا شیخ رشید نہیں، جو یو ٹرن لے لیں'

شائع November 9, 2016

لاہور: حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور وزیراعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی مشاہد اللہ خان نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ حکومت نئے آرمی چیف کو تعینات کرے گی کیونکہ جنرل راحیل شریف پہلے ہی اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ 'آرمی چیف خود ہی توسیع نہیں چاہتے، وہ (جنرل راحیل شریف) عمران خان یا شیخ رشید نہیں ہیں جو یو ٹرن لے لیں'۔

جنرل راحیل شریف کے جانشین کے ممکنہ نام کے اعلان سے متعلق حکومتی منصوبے کے حوالے سے سوال پر مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ 'مجھے اس سلسلے میں پارٹی قیادت سے بات کرنی پڑے گی کیونکہ اس معاملے میں مجھ سے مشاورت نہیں کی گئی۔'

مزید پڑھیں:'نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا'

گذشتہ روز ڈان نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا بھی کہنا تھا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے ابھی تک کسی قسم کی مشاورت نہیں ہوئی۔

انھوں نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر فیصلے کے حوالے سے میڈیا پر آنے والی رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'نہ ہی اس حوالے سے کوئی فیصلہ کیا گیا اور نہ ہی اب تک اس پر بات چیت کا آغاز ہوا ہے'۔

نیا آرمی چیف کون ہوگا؟

واضح رہے کہ جنرل راحیل شریف 28 نومبر کو ریٹائر ہونے جارہے ہیں اور یہ وزیراعظم نواز شریف کے لیے پانچواں موقع ہوگا جب وہ پاک فوج کے سربراہ کا تقرر کریں گے۔

جنرل راحیل شریف کے جانشین کے انتخاب کے حوالے سے حکومت نے اب تک باضابطہ طور پر غور شروع نہیں کیا لیکن اس معاملے سے واقف حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے سال کے آغاز سے ہی اس معاملے پر مشاورت شروع کررکھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا مختصر تعارف

جنوری میں جنرل راحیل شریف کی جانب سے دیئے گئے اُس بیان کو جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ مقررہ وقت پر ریٹائر ہوجائیں گے اندورنی معاملات سے واقف لوگ پس پردہ سیاسی چالبازی کا شاخشانہ قرار دیتے ہیں۔

پاک فوج کے سینئر افسران کی فہرست بہت حد تک واضح ہے، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات سینیئر ترین افسر ہیں اور ان کے بعد کور کمانڈر ملتان، لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد، کور کمانڈر بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اور انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلیو ایشن لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کا اگلا آرمی چیف کون ہوگا؟

جنرل زبیر اور جنرل اشفاق کے درمیان دو اور جنرلز بھی ہیں ، ایک ہیوی انڈسٹریل کمپلیکس ٹیکسلا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید واجد حسین اور دوسرے ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ خان، تاہم یہ دونوں افسران آرمی چیف کے عہدے کے لیے تکنیکی طور پر اہل نہیں کیوں کہ انہوں نے کسی کور کی کمانڈ نہیں کی ہے۔

اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل مقصود احمد جو اس وقت اقوام متحدہ میں ملٹری ایڈوائزر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں وہ پہلے ہی توسیع پر ہیں اور وہ بھی مزید پروموشن کے اہل نہیں۔

جو چار جنرلز آرمی چیف کے عہدے پر ترقی پانے کے اہل ہیں ان تمام کا تعلق پاکستان ملٹری اکیڈمی کے 62 ویں لانگ کورس سے ہے۔

ڈان لیکس: 'جسٹس عامر شاید تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی نہ کریں'

پریس کانفرنس کے دوران لیگی سینیٹر سینیٹر مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ جسٹس عامر رضا خان ڈان اخبار میں شائع ہونے والی قومی سلامتی سے متعلق خبر کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی 7 رکنی حکومتی کمیٹی کی سربراہی نہ کریں۔

لیگی سینیٹر کا کہنا تھا، 'میں نے سنا ہے کہ وہ (جسٹس عامر رضا) اس حوالے سے پیدا ہونے والے تنازع کے بعد تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی نہ کرنے پر غور کر رہے ہیں'۔

یہاں پڑھیں:ڈان لیکس کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل

تاہم ان کی تعیناتی کی حمایت کرتے ہوئے مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ جسٹس عامر رضا ایک قابل جج ہیں۔

مذکورہ خبر کے بعد سول ملٹری تعلقات میں دراڑ کے حوالے سے سوال کے جواب میں مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے ہمیشہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ حکومت کو فوج کے ساتھ کچھ مسائل ہیں، ساتھ ہی انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024