امریکی صدارتی الیکشن: پاکستان کا ذکر نہ ہونا ایک نعمت
امریکا میں 8 سال قبل الیکشن مہم کے دوران افغان جنگ کے خاتمے کے لیے کیا جانے والا عہد اس وقت براک اوباما کی انتخابی مہم میں پاکستان کی ان چاہی مقبولیت کی وجہ بن گیا تھا، لیکن اب ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہمات میں پاکستان کا ذکر نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔
اکتوبر میں بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کو دیئے جانے والے ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان اورہندوستان کے درمیان ’ثالث یا مصالحت کار بننا پسند‘ کریں گے، لیکن اس کے برعکس روایتی انداز میں رپبلکن ہندو کوایلیشن کی ایک تقریب میں اسی روز ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کی صدارت میں امریکا بھارت کا ’پکا دوست‘ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: صدر بنا تو امریکا اور بھارت ’پکے دوست‘ ہوں گے، ٹرمپ
دوسری جانب، ہیلری کلنٹن نے اپنی پوری مہم میں پاکستان کے حوالے سے کوئی اہم بات نہیں کی، امریکا میں موجود پاکستانی تجزیہ کاروں کی رائے میں امریکا کی پرشور صدارتی مہم میں پاکستان کے معاملے پر دونوں امیدواروں کی خاموشی کسی رحمت سے کم نہیں۔
امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس ( یو ایس آئی پی) میں ایشیا پروگرامز کے نائب صدراینڈریو ولڈر کا ڈان کو بتانا تھا کہ ’ پاکستان اور افغانستان کا امریکی صدارتی مہم کا حصہ نہ بننا خوش قسمتی کی بات ہے، کیونکہ اگر تذکرہ ہوتا تو منفی انداز میں ہوتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ صدارتی مہم اہم پالیسی معاملات کی مہم نہیں رہی‘
ایک جانب جہاں ہیلری کلنٹن وزیر خارجہ کی حیثیت سمیت طویل عوامی ریکارڈ رکھتی ہیں وہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی تقاریر میں پاکستان کا تذکرہ سرے سے موجود نہ ہونے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ٹرمپ کی صدارت میں پاک امریکا تعلقات صدر اوباما کی پاکستان سے متعلق پالیسی سے مختلف ہوتے ہیں یا کن شعبوں تک محدود رہتے ہیں اس بات کا واضح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ،قومی سیکیورٹی ٹیم کا خاکہ اور ان کی جانب سے نمایاں مشیروں کی سوچ سے ہٹ کر دیئے گئے بیانات ان کی پالیسی کو مزید غیرواضح کرتے ہیں۔ ایٹلانٹک کونسل کے نمایاں رکن اور کتاب ’کراسڈ سووارڈز‘ کے مصنف، شجاع نواز کے خیال سے ’ڈونلڈ ٹرمپ ہیلری کلنٹن سے زیادہ خطرناک ہیں، کیونکہ آپ اس بات کا اندازہ نہیں لگاسکتے کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔‘
قومی سیکیورٹی کے معاملے پر ٹرمپ کے نمایاں مشیران میں سے ایک ریٹائرڈ آرمی جنرل، مائیکل فلین ہیں، جنرل فلین اگست 2014 تک ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی (ڈی آئی اے) کے ڈائریکٹر تھے اور وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کئی اہم متنازع پالیسیوں اور باتوں پر حمایت کرکے عوام میں اور بالخصوص اپنے سابقہ ساتھیوں کی تشویش میں اضافے کا سبب بن چکے ہیں۔
لیکن شجاع نواز کے مطابق جنرل فلین پاکستان سے اچھی طرح واقف ہیں اور بحیثیت ڈائریکٹر ڈی آئی اے وہ پاکستانی حکام کو سرحد پار عسکریت پسندی کے ثبوت دیکھا چکے ہیں، انہیں ثبوتوں کی بنیاد پر پاکستان پر مزید کارروائی کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔
جنرل فلین کے اس اقدام پر انٹیلی جنس اداروں میں موجود ان کے ہم عصروں کی جانب سے غصے کا اظہار بھی کیا گیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا اس طرح ڈی آئی اے کے ڈائریکٹر نے امریکی سراغ رسانی کے طریقوں کو پاکستان کے سامنے ظاہر کردیا تھا۔
شجاع نواز کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ شاید جنرل فلین پاکستان سے تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہوں اور شاید اپنے باس یعنی ڈونلڈ ٹرمپ سے بہت مختلف ہوں، لیکن آخر میں جو چیز اہم ہے وہ باس کا فیصلہ ہی ہے۔‘
مزید پڑھیں: 'ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھیں گے'
ٹرمپ کی صدارت میں پاکستان کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کے برعکس ہیلری کلنٹن کے صدر منتخب ہوجانے کے بعد پاکستان سے متعلق ان کی پالیسی کا اندازہ لگانا قدرے آسان ہے۔
کارنیجی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے نائب صدر اور کتاب ’ ناٹ وار۔ ناٹ پیس: موٹیویٹنگ پاکستان ٹو پری وینٹ کراس بارڈر ٹیررازم‘ کے مشترکہ مصنف جارج پرکووچ کا خیال ہے کہ ’ہیلری کلنٹن صدر اوباما کا ہی تسلسل ہوسکتی ہیں‘
مزید وضاحت دیتے ہوئے جارج پرکووچ کا کہنا تھا کہ ’بھارت اور بھارتیوں کو جتنا خوش رکھا جاسکتا ہے اتنا خوش رکھا جائے، چین پر نظر رکھی جائے اور کانگریس میں موجود جو لوگ بین الاقوامی تعاون کے پیش نظر پاکستان کی امداد کرنا چاہتے ہیں مگر افغانستان میں پاکستانی فوجی قیادت کے ارادوں پر تشویش میں مبتلا ہیں انہیں روکا جائے اور ہندوستان میں جہادی حملوں کے خطرے کو کم کیا جائے۔‘
تسلسل اپنے آُپ میں پریشانی یا کوفت کا باعث ہوتا ہے،تاہم یو ایس آئی پی کے نائب صدر اینڈریو ولڈرکے مطابق، ’افغانستان میں 2020 تک طے شدہ امریکی وعدوں کی وجہ سے افغانستان سے تعلقات امریکا کی ترجیح میں شامل رہیں گے‘ اور اگر ہیلری کلنٹن صدر منتخب ہوجاتی ہیں تو پاک امریکا تعلقات اسی طرح کوفت کا شکار رہ سکتے ہیں۔ اینڈریو ولڈر نے یہ بھی خبردار کیا کہ صدر اوباما سے ہونے والی صدارت کی منتقلی کے لیے اگلے منگل ہونے والے الیکشن اور جنوری میں نئے صدر کے حلف لینے کے دوران تبدیلی افغانستان اور اس کے پڑوس میں سیاسی دباؤ کا سبب بن سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیشنل یونیٹی گورنمنٹ کا انحصار پاکستان اورافغانستان کے خصوصی نمائندے اور وزیر خارجہ جان کیری پر ہوتا ہے، ان کے جانے کے بعد جب تک نئی ٹیم منتخب نہیں ہوجاتی، افغانستان میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
یہ خبر 5 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی