• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

کیپٹن (ر) صفدر نے سپریم کورٹ میں ٹی او آرز جمع کرادیئے

شائع November 5, 2016

اسلام آباد: وزیر اعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے مجوزہ کمیشن کے لیے ایک اپنے ضابطہ کار (ٹی او آرز) سپریم کورٹ میں جمع کرادیئے۔

محمد صفدر کے ٹی او آرز میں تجویز دی گئی ہے کہ مجوزہ کمیشن کو پاکستان سے کرپشن ، کمیشن اور ناجائز مالی فوائد حاصل کرکے کمائے گئے پیسوں کی بیرون ملک منتقلی کی تفصیلات کی چھان بین کرنے اور ان جرائم میں ملوث افراد کی نشاندہی کی اجازت ہونی چاہیے۔

کپٹن صفدر نے پارلیمانی کمیٹی میں پیش کردہ حکومتی ٹی او آرز عدالت میں جمع کرائے جن میں یہ استفسار کیا گیا ہے کہ کیا آف شور کمپنی بناتے وقت انکم ٹیکس،فارن ایکسچینج سمیت مروجہ قوانین کی خلاف ورزی ہوئی؟

ٹی او آرز میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ مجوزہ کمیشن کو کسی بھی شخص یا دستاویز منگوانے،ضابطہ فوجداری اور دیوانی کے اختیارات، کسی ادارے یا جگہ کی تلاشی،پولیس کو بھی تفتیش کا حکم دینے اور اپنی کارروائی میں مداخلت کرنے والے کو سزا دینے کا بھی اختیار حاصل ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں آفشور کمپنیوں میں مبینہ سرمایہ کاری کے حوالے سے وزیر اعظم کی نااہلی کے خلاف دائر ہونے والی پٹیشنز پر سماعت کررہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس کیس : سپریم کورٹ کا ایک رکنی کمیشن کے قیام کا فیصلہ

جمعرات 3 نومبر کو بینچ نے تمام فریقین کو ہدایات کی تھیں کہ وہ پٹیشن میں اٹھائے جانے والے سوالات پر اپنے جوابات داخل کریں اور مجوزہ کمیشن کے حوالے سے ٹی او آرز بھی جمع کرائیں۔

محمد صفدر کے جواب میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں اہلیہ مریم کی مالی ذمہ داریاں اور اثاثے ظاہر کیے تھے۔

کیپٹن صفدر نے جمعرات کے روز اپنا جواب داخل کیا تھا اور انہوں نے اپنے ٹی او آرز میں تجویز پیش کی کہ مجوزہ کمیشن کو پاناما یا کسی اور ملک میں قائم آفشور کمپنی میں ملوث پاکستانی شہریوں، پاکستانی نژاد شہریوں اور قانونی اداروں کے ملوث ہونے سے متعلق معلومات کی جانچ کرنی چاہیے جبکہ اس بات کا تعین بھی کرنا چاہیے کہ قانون کی خلاف ورزی تو نہیں کی گئی اور اگر قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو ذمہ داروں کا تعین کرنا چاہیے۔

ٹی او آرز کے مطابق کمیشن کو اس بات کا بھی تعین کرنا چاہیے کہ آیا آفشور کمپنیوں کے ذریعے خریدی جانے والی جائیدادوں میں انکم ٹیکس، دولت ٹیکس، فارن ایکسچینج، کمپنیز اور انتخابات کے حوالے سے قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں جبکہ جائیدادیں خریدنے کے لیے استعمال ہونے والی رقم کا ذریعہ آمدنی، آمدنی پر ٹیکس کی ادائیگی اور جائیدادیں فروخت کرنے والوں کا بھی تعین ہونا چاہیے۔

ٹی او آرز میں یہ بھی کہا گیا کہ کمیشن کو بینکوں سے معاف کرائے گئے قرضوں کی بھی چھان بین کرنی چاہیے، جس میں ماضی میں سپریم کورٹ کی جانب سے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ کو بھی شامل کیا جانا چاہیے جبکہ موجودہ اور سابق سرکاری عہدے داروں کی جانب سے قرض معاف کرانے کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس: سپریم کورٹ نے فریقین سے ٹی او آرز مانگ لیے

کمیشن کو اس بات کا بھی تعین کرنا چاہیے کہ آیا قرضے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے تو معاف نہیں کرائے گئے۔

دریں اثناء سپریم کورٹ میں جمع کرائے جانے والے جواب میں کیپٹن صدر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے ان کے خلاف دائر کی جانے والی پٹیشن محض الزامات پر مبنی ہے لہٰذا اسے مسترد کردینا چاہیے۔

اپنے جواب میں کیپٹن صفدر نے کہا کہ ان کے خلاف کیس جھوٹے، ناقص اور غیر مصدقہ دعووں پر مبنی ہے جس میں کہا گیا کہ وہ 2013 کے عام انتخابات میں اپنی اہلیہ مریم کے اثاثے اور مالی ذمہ داریوں کی تفصیلات جمع کرانے میں ناکام رہے اور آئین کی شقوں اور عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے لہٰذا انہیں رکن پارلیمٹ کے عہدے کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پٹیشن میں جن اثاثوں کو مبینہ طور پر ظاہر نہ کرنے کا ذکر کیا گیا مریم نہ ان کی مالک ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی واجبات رکھتی ہیں۔

کیپٹن صفدر نے دعویٰ کیا کہ مریم باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتی رہی ہیں اور محکمہ ٹیکس میں اپنے گوشوارے جمع کراتی رہی ہیں جبکہ ان کے نام پر جتنے بھی اثاثے اور مالی ذمہ داریاں ہیں انہیں باضابطہ طور پر ظاہر کیا جاچکا ہے۔

جواب میں کیپٹن صفدر نے کہا کہ ’چونکہ پٹیشن غیر مصدقہ حقائق، غلط اور جھوٹی معلومات کی حامل دستاویز پر مبنی ہے لہٰذا اسے مسترد کیا جانا چاہیے جبکہ درخواست گزار کو لگائے گئے الزامات سے متعلق ٹھوس شواہد بھی پیش کرنے چاہئیں‘۔


کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024