• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

پاناما لیکس: سپریم کورٹ نے فریقین سے ٹی او آرز مانگ لیے

شائع November 1, 2016

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے بعد حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پر تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 نومبر تک ملتوی کردی۔

جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس کی درخواستوں پر سماعت کی۔

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔

مزید پڑھیں:پاناما لیکس: وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری

گذشتہ ماہ 20 اکتوبر کو ان درخواستوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کی تھی۔

بعدازاں عدالت عظمیٰ نے درخواستوں کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی تھی، جبکہ درخواستوں کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس: سماعت اسلام آباد دھرنے سے ایک دن قبل

یکم نومبر کو جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ پاناما لیکس پر تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے لیے آج ہی ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کمیشن کی سربراہی کون کرے گا اور اس میں کون ہوگا اس کا فیصلہ عدالت کرے گی اور دوسرے فریق کی رضامندی کے بعد عدالت کمیشن کے قیام کا فیصلہ کرے گی۔

جس کے بعد کیس کی سماعت دن 1 بجے تک ملتوی کردی گئی اور تحریک انصاف اور حکومت کو مشاورت کے لیے وقت دیا گیا۔

1 بجے کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی اور عدالت نے تمام فریقین کو پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پیش کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے قرار دیا کہ مجوزہ کمیشن کو سپریم کورٹ کے مساوی اختیارات حاصل ہوں گے اور کمیشن عدالت عظمٰی ہی کو رپورٹ پیش کرے گا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پاناما لیکس سے پورا ملک متاثر ہوا، عدالت کا کام ملک کو انتشار اور بحران سے بچانا ہے۔

اس موقع پر جسٹس آصف سیعد کھوسہ نے کہا کہ تنازعات کے حل کا سب سے بڑا ادارہ سپریم کورٹ ہے اور عدالت فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کرے گی۔

حکومت کا جوڈیشل کمیشن کے قیام پر آمادگی کا اظہار

پاناما لیکس کے معاملے پر حکومت نے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر آمادگی ظاہر کردی۔

وزیراعظم نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ وزیراعظم لندن کی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے راضی ہیں اور الزامات درست ثابت ہوئے تو وزیراعظم نتائج تسلیم کریں گے۔

سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ہم عدالتی کارروائی پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور عدالت کے فیصلے پر سر تسلیم خم کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ تمام فریقین عدالت کے فیصلے پر اعتماد کا اظہار کریں اور جو طریقے آزمائے ہوئے ہیں انہیں ترک کریں، دھرنوں، مار دھاڑ اور لاک ڈاؤن کی سیاست ذاتی اقتدار کے لیے ہوسکتی ہے لیکن پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے نہیں۔

دوسری جانب وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم عدالت عظمیٰ کے ساتھ چلیں گے اور چاہتے ہیں کہ معاملے کا جلد از جلد فیصلہ ہو۔

انھوں نے پی ٹی آئی چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب جبکہ عدالت نے باقاعدہ آغاز کردیا ہے، عمران خان کو کل کے احتجاج کو ختم کردینا چاہیئے تاکہ لوگ گھروں کو لوٹیں۔

انھوں نے کہا کہ کارکنوں کو مزید آزمائش میں نہ ڈالیں، لاک ڈاؤن یا احتجاج کا کوئی جواز نہیں، ہم توقع کرتے ہیں کہ تحریک انصاف دھرنے کی کال واپس لے گی۔

اپوزیشن کے ٹی او آرز 6 ماہ پہلے والے ہی ہوں گے، پی ٹی آئی

سماعت کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ نے فریقین کو ٹی او آرز پیش کرنے کا کہا ہے اور اگر ان پر اتفاق نہیں ہوا تو عدالت خود ٹی او آرز سیٹ کردے گی۔

تاہم حامد خان کا کہنا تھا کہ 6 مہینے پہلے ہی اپوزیشن کے ٹی او آرز دیئے جاچکے اب بھی وہی ہوں گے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی ترجمان نعیم الحق نے واضح طور پر اعلان کردیا کہ کسی عدالت نے دھرنے سے نہیں روکا لہٰذا 2 نومبر کو ہر صورت میں دھرنا ہوگا اور اس حوالے سے پلان تبدیل نہیں ہوگا۔

یہاں پڑھیں:2 نومبر کو دھرنا ہر صورت ہوگا، پی ٹی آئی کا اعلان

نعیم الحق نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی کسی عدالت نے ہمیں ابھی تک احتجاج کا حق استعمال کرنے سے نہیں روکا، ہم پر کوئی قید و بندش نہیں ہے، ہم ہمیشہ پر امن رہے ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم نواز شریف جھوٹ بولنے میں مہارت رکھتے ہیں، وہ پھر سپریم کورٹ سے جھوٹ بولنے کی کوشش کریں گے‘۔

پاناما انکشافات اور اپوزیشن کا احتجاج

سپریم کورٹ نے ایک ایسے وقت میں پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کی ہے، جب اگلے ہی روز یعنی 2 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف پاناما لیکس اور کرپشن کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دینے جارہی ہے اور عمران خان کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف یا تو استعفیٰ دیں یا پھر خود کو احتساب کے سامنے پیش کردیں۔

یہ بھی پڑھیں:’2 نومبر کو پی ٹی آئی کی پوری قیادت سڑکوں پر ہوگی‘

یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لاء فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟


• کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

• کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

مزید پڑھیں:شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بعد ازاں جوڈیشل انکوائری پر اتفاق کیا گیا جس کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نے 22 اپریل کو قوم سے اپنے خطاب میں کیے گئے اعلان کے مطابق سپریم کورٹ کو کمیشن کے قیام کے لیے خط ارسال کیا تاہم چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کمیشن بنانے سے متعلق حکومتی خط کو اعتراضات لگا کر واپس کر دیا تھا۔

حکومت کو جوابی خط میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے لکھا تھا کہ جب تک فریقین مناسب ضوابط کار پر متفق نہیں ہوجاتے، کمیشن تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ حکومتی ضوابط کار بہت وسیع ہیں، اس کے تحت تحقیقات میں برسوں لگ جائیں گے اور جس خاندان، گروپ، کمپنیوں یا افراد کے خلاف تحقیقات کی جانی ہیں ان کے نام فراہم کرنا بھی ضروری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس: 'سپریم کورٹ کیلئے تحقیقات کروانا مشکل ہوگا'

بعدازاں پاناما لیکس کی تحقیقات کی غرض سے حکومت اور اپوزیشن کی 12 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، حکومت اور اپوزیشن میں اس حوالے سے متعدد اجلاس ہوئے مگر فریقین اس کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر متفق نہ ہو سکے۔

تحریک انصاف کا مطالبہ تھا کہ حکومت پاناما لیکس کی آزادانہ تحقیقات کروانے کے لیے اپوزیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) کو تسلیم کرے اور ان ہی الزامات کو جواز بناکر پی ٹی آئی 2 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دینے جارہی ہے۔

اپوزیشن کے ٹی او آرز

حزب اختلاف کی 9 جماعتوں کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے لیے 15 ٹی او آرز متفقہ طور پر منظور کیے گئے تھے۔

اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے وزیر اعظم سے استعفے کے مطالبے پر اتفاق کیا تھا تاہم قومی وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اختلاف کے باعث وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ ٹی او آرز میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

اپوزیشن کے ٹی او آرز میں کمیشن کی جانب سب سے پہلے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے احتساب کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ اس کے لیے 3 ماہ کی مدت مقرر کرنے کا بھی مطالبہ شامل تھا۔

پاناما لیکس میں سامنے آنے والے دیگر افراد کے حوالے سے یہ شق شامل کی گئی تھی کہ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے احتساب کے بعد دیگر لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے جبکہ اس کی تحقیقات ایک سال میں مکمل کر لینی چاہیے۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو غلط ثابت کرنا ہوگا۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ خود کو تحقیقات کیلئے کمیشن کے سامنے پیش کریں۔

• نواز شریف 1985 سے 2016 تک جائیداد کی تفصیلات فراہم کریں۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے ذرائع آمدن کیا تھے، کن بینک اکاؤنٹس میں رقم رکھی گئی؟

• کیا اس آمدن پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا جانا تھا؟

• بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں کیلئے رقم کن بینک اکاؤنٹس، کس تاریخ پر ادا کی گئی؟

• کمیشن کو آف شور اکاؤنٹس میں بھیجی گئی رقم کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔

• کیا وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ دسمبر 2000 کے بعد اسٹیٹ گیسٹ تھے؟

• خصوصی کمیشن عالمی فرانزک آڈٹ کیلئے ماہرین کی کمیٹی بھی مقرر کرسکے گا۔

• ماہرین کی کمیٹی آف شور کمپنیوں کیلئے رقم کی مکمل چھان بین کرے گی۔

• نیب اور ایف آئی اے سمیت تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔

حکومتی ٹی او آرز

اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے گئے ٹی او آرز کو حکومت کی جانب سے مسترد کردیا گیا تھا، جبکہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک پریس کانفرنس میں اپوزیشن کے ٹی او آرز کو تماشا قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے 22 اپریل کو قوم سے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ان کے اہل خانہ پر پاناما پیپرز میں لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا گیا ہے۔

مذکورہ اعلان کے فوری بعد حکومت نے سیچوٹری ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) جاری کیا تھا جس میں پاکستان کمیشن آف انکوئری ایکٹ 1965 کے سیکشن 3 ون کے تحت کمیشن کیلئے 3 افراد کا نام دیا تھا۔

تاہم اپوزیشن نے حکومتی ٹی او آرز کو مسترد کردیا تھا۔

حکومت کی جانب سے کمیشن کے لیے مندرجہ ذیل ٹرمز آف ریفرنس مقررکیے گئے تھے۔

• کمیشن پاکستانی شہریوں، پاکستانی نژاد غیر ملکیوں اور اداروں سے پاناما یا کسی اور ملک میں آف شور کمپنیوں سے متعلق تحقیقات کرسکے گا۔

• کمیشن کو موجودہ یا پھر سابقہ عوامی عہدوں کے حامل افراد سے بھی تحقیقات کا اختیار ہوگا جنہوں نے سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے یا اہل خانہ کے قرضے معاف کرائے یا پھر کرپشن، کمیشن یا کک بیکس کے ذریعے کمائی گئی رقم ملک سے باہر بھجوائی۔

• انکوائری کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا پاناما لیکس کے الزامات کے مطابق کسی پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

• انکوائری کمیشن کو ٹیکس ماہرین اور اکاونٹنٹ سمیت کسی بھی شخص کو طلب کرنے کا اختیار ہوگا۔ کمیشن کسی بھی قسم کی دستاویز طلب کرسکے گا۔

• انکوائری کمیشن کے سربراہ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ مجاز افسر کو کسی بھی عمارت یا مقام میں داخلے اور مطلوبہ ریکارڈ کے حصول کے احکامات دے سکے گا۔

• انکوائری کمیشن کی تمام کارروائی عدالتی کارروائی تصور ہوگی۔ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔

• تحقیقات کب اور کہاں ہوں گی اس کا فیصلہ انکوائری کمیشن خود کرے گا۔

• کابینہ ڈویژن انکوائری کمیشن کو دفتری خدمات فراہم کرے گا۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024