• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

2’ نومبر کو احتجاج پریڈ گراؤنڈ پر ہی ہوگا‘

شائع October 29, 2016

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انصاف لائرز فورم (اسلام آباد چیپٹر) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو یقین دہانی کرادی کہ ان کی پارٹی 2 نومبر کو پریڈ گراؤنڈ میں ہی طے شدہ احتجاج کرے گی۔

تاہم پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اشارہ دیا تھا کہ ان کی جماعت احتجاج کا دائرہ ڈی چوک تک وسیع کرسکتی ہے۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک بار پھر حکم جاری کیا کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس سڑکوں پر کنٹینرز لگاکر دارالحکومت کے داخلی راستوں کو بند نہ کریں اور پی ٹی آئی کے ورکرز کو ہراساں نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں:'2 نومبرکو کنٹینر لگے گا، نہ سڑکیں بند ہوں گی'

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ضلعی انتظامیہ کو جمعرات کے روز یہ ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ پی ٹی آئی کو یہ پیغام پہنچادے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر تقاریب وریلیوں کے لیے حکومت کی جانب سے مختص پریڈ گراؤنڈ کے آخر میں واقع ڈیموکریسی پارک میں احتجاجی مظاہرہ کرسکتی ہے۔

کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے یہ مقام نمائشوں اور اور ثقافتی تقاریت کے انعقاد کے لیے 24 کروڑ 80 لاکھ روپے کی لاگت سے تیار کیا گیا تھا جبکہ پاک فوج نے گزشتہ برس یوم پاکستان کی سالانہ پریڈ بھی یہیں منعقد کی تھی۔

اس کے مغرب میں اسلام آباد ہائی وے ہے، جنوب میں مری روڈ جبکہ شمال میں گارڈن ایوینیو ہے۔

2014 میں دھرنوں اور سیاسی ریلیوں کے لیے ایک جگہ مختص کرنے کے حوالے سے پٹیشن کی سماعت کے دوران جسٹس عزیز صدیقی نے سی ڈی اے کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ ایک مخصوص مقام کا تعین کرے اور اسے سیاسی جلسوں اور دھرنوں کے لیے مختص کرے۔

کئی اجلاسوں اور طویل مشاورت کے بعد سی ڈی اے نے گزشتہ برس 5 نومبر کو نوٹیفیکشن جاری کیا جس کے مطابق عوامی اجتماعات، مظاہروں اور ریلیوں کے لیے پریڈ گراؤنڈ کو مختص کردیا گیا۔

تاہم حکام اس نوٹیفیکیشن کو منظر عام پر نہیں لائی تھی اور 26 اکتوبر کو یہ اس وقت سامنے آیا جب جسٹس صدیقی نے 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کے حوالے سے 4 مختلف درخواستوں کی سماعت شروع کی۔

مزید پڑھیں:اسلام آباد دھرنا: پی ٹی آئی اور حکومت کی 'تیاریاں'

گزشتہ برس 5 نومبر کو سماعت کے دوران عدالت نے اسلام آباد انتظامیہ کو ہدایت کی تھی وہ اس نوٹیفیکیشن پر عمل کرائے۔

جمعرات کو سماعت کے دوران جسٹس صدیقی نے ضلعی انتظامیہ کو ہدایات کیں کہ وہ ’ڈیموکریسی پارک اور اسپیچ کارنر‘ میں احتجاج کے لیے انتظامات مکمل کرے جبکہ عدالت نے اسلام آباد کو بند کرنے کے حوالے سے بیان پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو طلب کرلیا۔

اسی عدالت نے جمعے کو انصاف لائرز فورم کی پٹیشن پر بھی سماعت کی جس میں درخواست گزاروں نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے بدعنوان عناصر کے احتساب کے لیے 2 نومبر کو پر امن احتجاج کا منصوبہ بنایا تھا اور سیکٹر ای میں بھی اس کے ورکز پر امن کنونشن کررہے تھے لیکن پولیس نے اس مقام پر چھاپہ مارا ، شرکاء پر لاٹھی چارج کیا اور کئی افراد کو گرفتار کرلیا۔

درخواست میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ جسٹس صدیقی نے 27 اکتوبر کو اپنے احکامات میں ضلعی انتظامیہ اور آئی جی پولیس کو سیاسی ورکرز کے پر امن اجتماع میں رخنہ نہ ڈالنے کی ہدایات کی تھیں لیکن اس کے باوجود ریاستی اداروں نے درخواست گزاروں، پی ٹی آئی ورکرز اور رہنماؤں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کی 29 اکتوبر کی ریلی منسوخ

جب درخواست گزاروں سے استفسار کیا گیا کہ کیا پی ٹی آئی اور اس کے رہنما بشمول عمران خان 27 اکتوبر کے عدالتی احکامات کی پاسداری کریں گے تو درخواست گزاروں اور ان کے وکیل نے یقین دہانی کرائی کہ عدالتی احکامات کا اس کی روح کے مطابق احترام کیا جائے گا اور احتجاج مقررہ مقام پر ہی ہوگا۔

عدالت نے ریاستی وکیل ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد خان جدون، فضل الرحمٰن نیازی اور ارشد محمود کیانی کے توسط سے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو حکم دیا کہ وہ کسی بے گناہ شخص کو ہراساں نہ کریں اور کنٹینرز لگاکر یا کسی بھی طریقے سے شہر کو بند نہ کریں۔

عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور پولیس چیف سے گرفتار کیے جانے والے پی ٹی آئی ورکرز کی فہرست جمع کرانے کی بھی ہدایت کی جس میں ان کے کوائف اور الزامات درج ہونے چاہئیں جن کے تحت انہیں حراست میں لیا گیا۔

جسٹس صدیقی نے ضلعی انتظامیہ سے حکم دیا کہ ’وہ اسلام آباد کے چار کونوں تک محدود رہے اور اگر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی بھی قانون کے مطابق ہونی چاہیے‘۔

مزید پڑھیں: مجھے کس قانون کے تحت نظربند کیا گیا،عمران خان کا سوال

پی ٹی آئی کے وکیل نے جج کو بتایا کہ پارٹی 27 اکتوبر کے احکامات کی پاسداری کرے گی تاہم انہوں نے ڈان کو بتایا تھا کہ پارٹی قیادت احکامات کو چیلنج کرنے کے لیے نعیم بخاری اور بابر اعوان سے مشاورت کررہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عدالتی احکامات کے خلاف اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ یا سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے۔

اس معاملے پر پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔

البتہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کی پارٹی احتجاج کی حکمت عملی تبدیل کرنے پر غور کررہی ہے اور ممکن ہے کہ اسے ڈی چوک تک بڑھا دیا جائے۔

یہ خبر 29 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024