• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

’پاکستانی ہائی کمیشن کا افسر ہندوستان بدر‘

شائع October 27, 2016

نئی دہلی: بھارت نے جاسوسی کا الزام عائد کرکے پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک افسر کو ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دے دیا اور 48 گھنٹوں کے اندر اندر انہیں ملک چھوڑ دینے کا حکم دے دیا۔

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے افسر کو دہلی پولیس نے جاسوسی کے الزام میں حراست میں لیا تاہم کچھ دیر بعد انہیں رہا کردیا گیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے تصدیق کی کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک افسر کو جاسوسی کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔

وکاس سوارپ نے ٹوئیٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ ’سیکریٹری خارجہ نے پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کیا اور انہیں اس بات سے آگاہ کیا کہ ان کے ایک افسر کو ناپسندیدہ شخص قرار دیا گیا ہے‘۔

دہلی پولیس کے کمشنر رویندرا یادیو نے بتایا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے عہدے دار کو دفاع اور دیگر حساس دستاویز کے ساتھ حراست میں لیا گیا۔

انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ان دستاویز میں بھارتی سرحدی فورسز کی تعیناتی سے متعلق معلومات بھی شامل تھیں۔

ادھر پاکستانی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ محمود اختر نامی ویزا آفیشل کو بھارت چھوڑنے کے لیے 48 گھنٹوں کی مہلت دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان سے انڈین نیوی کا حاضر سروس افسر گرفتار

پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی)کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے محمود اختر کو بدھ کی شب حراست میں لیا گیا اور ان کے پاس دفاع سے متعلق دستاویز موجود تھے۔

پی ٹی آئی نے پولیس حکام کے حوالے سے بتایا کہ بعد ازاں محمود اختر کو تفتیش کے بعد رہا کردیا گیا کیوں کہ انہیں ’سفارتی استثنیٰ‘ حاصل ہے۔

اس کے علاوہ مزید دو افراد مولانا رمضان اور سبھاش جہانگیر کو بھی حراست میں لیا گیا جن پر الزام لگایا گیا کہ وہ پاکستانی ہائی کمیشن کے افسر کو حساس معلومات فراہم کررہے تھے۔

بھارتی الزامات مسترد

بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے بھارتی سیکریٹری خارجہ کے سامنے پاکستانی ہائی کمیشن کے افسر کو حراست میں لینے اور ان کے ساتھ کی جانے والی بد سلوکی پر شدید احتجاج کیا۔

نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ترجمان کے مطابق عبدالباسط نے کہا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے افسر کو حراست میں لینا اور ان سے کی جانے والی بدسلوکی 1961 کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان کو بدنام کرنے کی ہندوستانی مہم افسوس ناک‘

پاکستانی ہائی کمشنر نے بھارت کی جانب سے عائد کیے جانے والے الزامات کو سختی سے مسترد کیا اور بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں۔

عبدالباسط نے مزید کہا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کبھی کسی ایسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہا جو اس کے سفارتی اقدار سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔

بعد ازاں پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی نئی دہلی کی جانب سے پاکستانی ہائی کمیشن کے افسر کو ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دینے کے اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے ہندوستان کی جانب سے عائد کیے جانے والے الزامات کو مسترد کردیا۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ بھارتی حکام نے پاکستانی سفارتکار کو 26 اکتوبر کو جھوٹے اور بے بنیاد الزام پر حراست میں لیا اور ہائی کمشنر کی مداخلت پر تین گھنٹے بعد انہیں رہا کردیا گیا جبکہ انہیں 29 اکتوبر تک بھارت سے نکل جانے کی بھی ہدایت کی گئی۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اپنے سفارتکار کی گرفتاری اور بدسلوکی کی مذمت کرتے ہیں اور بھارت کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے اشتعال انگیز اقدامات کے ذریعے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔

پاکستان عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بھارتی سازشوں کا نوٹس لے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات گزشتہ چند ماہ سے کشیدگی کا شکار ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ کشمیر کی موجودہ صورتحال، اڑی حملہ اور کنٹرول لائن پر مسلسل ہونے والی فائرنگ ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات گذشتہ ماہ 18 ستمبر کو مقبوضہ کشمیر کے اڑی سیکٹر میں فوجی مرکز پر حملے کے بعد سے مزید کشیدہ ہوگئے ہیں، جس کا الزام نئی دہلی نے اسلام آباد پر عائد کیا تھا تاہم پاکستان نے اسے سختی سے مسترد کردیا تھا۔

اُڑی حملے کا الزام ایک ایسے وقت میں پاکستان پر عائد کیا گیا تھا جب وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر میں بھارتی مظالم کا معاملہ اٹھانے والے تھے۔

مزید پڑھیں: ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فائرنگ سے 5 پاکستانی زخمی

بعدازاں 29 ستمبر کو لائن آف کنٹرول پر ہندوستان کے سرجیکل اسٹرائیکس کے دعووں نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا تھا تاہم سرجیکل اسٹرائیک کے بھارتی دعوے نے بھی پاکستان نے مسترد کردیا تھا۔

اس کے علاوہ 24 اکتوبر سے ورکنگ باؤنڈری پر بھی بھارت کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک 4 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں۔


کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024