برطانیہ کا انسداد دہشت گردی میں پاکستانی کردار کا دفاع
لندن: پاکستان کے خلاف شروع کی جانے والی ایک آن لائن پٹیشن پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے برطانوی دفتر خارجہ نے واضح طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا۔
پاکستان کے خلاف شروع کی جانے والی اس پٹیشن پر اب تک 19 ہزار 484 افراد دستخط کرچکے ہیں اور قانون کے مطابق اگر کسی پٹیشن پر 10 ہزار دستخط ہوجائیں تو برطانوی حکومت اس پر سرکاری موقف جاری کرنے کی پابندی ہوتی ہے۔
برطانوی دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’برطانیہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھاتا رہا ہے کہ اس کی سرحدری حدود میں سرگرم تمام دہشت گردوں کے خلاف مستقل کارروائی کی ضرورت ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو 'دہشتگردوں کا کفیل' ملک قرار دینے کی کوشش ناکام
حکومت کی آفیشل ویب سائٹ پر شروع کی جانے والی پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’پاکستان نے دہشت گردی کے معاملے میں دہرا معیار اپنایا ہوا ہے، اس نے دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی اتحاد(جس میں برطانیہ بھی امریکا کا اہم اتحادی ہے) کے دشمنوں کی معاونت کی ہے‘۔
پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ ’القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا خفیہ ٹھکانہ بھی پاکستان میں تھا اور یہ ملک اب بھی اقوام متحدہ کے بلیک لسٹ کردہ دہشت گردوں کے لیے محفوظ ٹھکانہ بنا ہوا ہے‘۔
اس پٹیشن پر پاکستان کے حوالے سے سرکاری موقف جاری کرتے ہوئے برطانوی وفتر خارجہ نے کہا کہ ’برطانیہ پاکستان کو تربیت فراہم کررہا ہے کہ کس طرح دیسی ساختہ بموں کا سراغ لگایا جائے اور انہیں ناکارہ بنایا جائے، انسداد دہشت گردی اور سلامتی کے امور پر مشاورت فراہم کررہا ہے جن میں ایوی ایشن اور ایئرپورٹ سیکیورٹی بھی شامل ہیں‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ برطانیہ شدت پسندانہ نظریے کو روکنے کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کے حوالے سے بھی پاکستان کو معاونت فراہم کررہا ہے۔
اس کے علاوہ برطانیہ کا دو طرفہ امدادی پروگرام پاکستان میں قانون کی حکمرانی، بہتر تعلیم کی فراہمی اور غربت کے خاتمے میں معاونت کررہا ہے۔
مزید پڑھیں: 'پاکستان کے خلاف پٹیشن خارج کرنا وائٹ ہاؤس کا ذمہ دارانہ اقدام'
واضح رہے کہ اس پٹیشن پر برطانوی حکومت کا رد عمل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برطانوی وزیر اعظم ٹریسا مے آئندہ ماہ بھارت کا دورہ کرنے والی ہیں جہاں وہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کریں گی۔
توقع کی جارہی ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پاک بھارت تعلقات اور کشمیر کا معاملہ غالب رہے گا جبکہ اس کے علاوہ برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء پر بھی بات چیت ہوگی۔
برطانیہ کی جانب سے انسداد دہشت گردی میں پاکستان کی کاوشوں کے اعتراف کا پاکستان میں فوج اور بیوروکریسی کی جانب سے خیر مقدم کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ رواں برس جولائی میں امریکی کانگریس کی سب کمیٹی نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان دوست ہے یا دشمن؟
دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے پاکستان کے رویے پر امریکی خدشات کی وجہ سے امداد میں بھی کٹوتیاں کی جاچکی ہیں۔
اسی طرح وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر بھی ایک پٹیشن شروع کی گئی تھی جس میں پاکستان کو ’دہشت گردوں کی کفیل ریاست‘ قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم اس پٹیشن پر ہونے والے دستخط پر امریکی حکام نے اعتراض اٹھائے تھے اور پٹیشن کو بند کردیا تھا۔
برطانیہ میں ستمبر کے آخر میں شروع کی جانے والی اس پٹیشن کو 29 مارچ 2017 تک کا وقت دیا جائے گا اور اگر اس دوران اس پر کم سے کم ایک لاکھ دستخط ہوگئے تو پھر برطانوی پارلیمنٹ اس پٹیشن پر بحث کی پابند ہوگی۔
پٹیشن پر جن لوگوں نے دستخط کیے ہیں ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق ان پارلیمانی حلقوں سے سامنے آیا ہے جہاں بھارتی نژاد برطانوی شہریوں کی اکثریت ہے۔
یہ خبر 20 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی