افغان حکومت سے 'خفیہ مذاکرات' نہیں کیے: طالبان
کابل: طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ قطر میں ہونے والے 'خفیہ مذاکرات' کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
یاد رہے کہ برطانوی اخبار گارجین نے رپورٹ کیا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان خفیہ مذاکرات کا سلسلہ ستمبر سے دوبارہ شروع ہوچکا ہے جبکہ بیشتر ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک مذاکرات کے دو دور قطر میں مکمل ہوچکے ہیں۔
برطانوی اخبار نے ایک طالبان رہنما کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں لکھا تھا کہ قطر میں ہونے والی ملاقاتوں میں ایک اعلیٰ امریکی سفارتی اہلکار بھی شامل تھے۔
مزید کہا گیا تھا کہ ان ملاقاتوں میں افغان طالبان کے ہلاک بانی ملامحمد عمر کے بھائی ملا عبدالمنان بھی موجود تھے۔
دوسری جانب افغان نیوز ویب سائٹ طلوع نیوز نے صدارتی محل ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ افغان انٹیلی جنس کے چیف محمد معصوم اسٹانکزئی اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر محمد حنیف اتمار نے بھی قطر میں ہونے والی ایک ملاقات میں شرکت کی۔
مزید پڑھیں:افغان حکومت اورطالبان میں ’خفیہ مذاکرات‘
تاہم خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں اس قسم کے مذاکرات یا ملاقات کی رپورٹس کو مسترد کردیا۔
طالبان ترجمان نے اپنے بیان میں کہا، 'امارات اسلامیہ کے نمائندوں کی اسٹانکزئی یا کسی اور عہدیدار سے ملاقات نہیں ہوئی، مذاکرات کے حوالے سے ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہماری پالیسی اس حوالے سے بالکل واضح ہے'۔
واضح رہے کہ طالبان طویل عرصے سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ غیر ملکی افواج کے افغانستان سے مکمل انخلاء کے بغیر وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں : افغانستان میں امن کیلئے چار فریقی اجلاس پراتفاق
اس سے قبل پاکستان کی مدد سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں کچھ پیشرفت دیکھی گئی تھی لیکن پھر امریکا کی جانب سے مئی میں کیے جانے والے ڈرون حملے میں طالبان رہنما ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد مذاکرات کا عمل مکمل طور پر رک گیا تھا۔
نئے طالبان رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ کے معاملات سنبھالنے کے بعد گذشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان میں ہونے والی طالبان کارروائیوں میں تیزی دیکھی گئی ہے۔
دوسری جانب امریکا کی طرف سے کابل کو مسلسل فضائی اور فوجی مدد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے تاکہ طالبان افغانستان میں اپنے قدم مضبوط نہ کرسکیں۔
تبصرے (1) بند ہیں