• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

’ارکان اسمبلی کے اثاثوں کے آڈٹ کا فیصلہ‘

شائع October 19, 2016

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ارکان اسمبلی کی جانب سے جمع کرائے جانے والے سالانہ اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات کی چھان بین کا فیصلہ کرلیا۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر ریٹائرڈ جسٹس سردار محمد رضا کی سربراہی میں کام کرنے والے الیکشن کمیشن نے سیکریٹریٹ کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اس حوالے سے کام شروع کرنے کے طریقہ کار وضع کرے جس میں ضابطہ کار اور ٹائم لائن کو بھی شامل کیا جائے جبکہ اسے منظوری کے لیے کمیشن کے سامنے پیش کیا جائے۔

اس سوال پر کہ اگر کوئی رکن اسمبلی اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات میں غلط بیانی کا مرتکب پایا گیا تو اس کے ساتھ کیا ہوگا؟ ای سی پی کے ایک عہدے دار نےبتایا کہ ان کے خلاف ری پریزینٹیشن آف پیپلز ایکٹ (روپا) کے سیکشن 82 کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: اراکین پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات جاری

واضح رہے کہ روپا کے سیکشن 42 اے (1) کے تحت قومی و صوبائی اسمبلی کے تمام ارکان پر لازم ہے کہ وہ ہر سال ستمبر کی 13 تاریخ تک اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کرائیں۔

ارکان سینیٹ بھی سینیٹ (الیکشنز) ایکٹ 1975 کے تحت اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کے پابند ہیں۔

الیکشن کمیشن کے عہدے دار نے بتایا کہ آئین کا سیکشن 42 اے (4) کہتا ہے کہ : ’جب کوئی رکن اسمبلی سب سیکشن 1 کے تحت اپنے اثاثوں کی تفصیلات جمع کراتا ہے اور وہ غلط ثابت ہوتی ہیں تو بدعنوانی کا مرتکب ہونے پر اس کے خلاف سیکشن 82 کے تحت کارروائی ہونی چاہیے‘۔

روپا کا سیکشن 82 بدعنوانی میں ملوث شخص کے لیے تین سال تک قید کی سزا کا تعین کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کمیشن خود ارکان اسمبلی کے اثاثوں کا آڈٹ کرے گا جبکہ اگر ضروری ہوا تو انہیں عدالتی، انتظامیہ یا ریوینیو حکام کے پاس بھی بھیجا جاسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ روپا کا سیکشن 104 اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر کوئی بھی ایسا کام جس کے لیے اس ایکٹ میں کوئی واضح شق یا سیکشن موجود نہیں تو پھر اسے کمیشن کی ہدایت کے مطابق کیا جاسکتا ہے۔

ارکان اسمبلی کے اثاثوں کے آڈٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنے پولیٹیکل فنانس ونگ کو دوبارہ فعال کرنے کے چند دنوں بعد سامنے آیا جب ای سی پی نی اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات جمع نہ کرنے والے 337 ارکان اسمبلی کو معطل کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے 336 پارلیمنٹیرینز کی رکنیت معطل کردی

واضح رہے کہ تقریباً ایک دہائی سے زائد عرصے سے اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات جمع کرانا محض رسمی کارروائی بن کر رہ گیا ہے کیوں کہ ای سی پی تفصیلات وصول کرتا ہے اور بغیر تصدیق اور جانچ پڑتال کیے اسے سرکاری گزٹ میں شائع کردیتا ہے۔

اکثر ارکان اسمبلی باآسانی اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کی شرائط کو نظر انداز کردیتے ہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔

یہاں ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ بیشتر ارکان اسمبلی اپنے اثاثوں کو حقیقت سے کہیں زیادہ کم ظاہر کرتے ہیں اور کئی سیاستدان ایسے بھی ہیں جنہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ذاتی گاڑی بھی نہیں تاہم انہیں قافلوں کی شکل میں سفر کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ارکان اسمبلی کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پہلے ہی ای سی پی میں اثاثے چھپانے کے الزام میں وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، حمزہ شہباز، وزیر اعظم کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، جہانگیر ترین اور دیگر رہنماؤں کی نااہلی کی درخواستیں آئی ہوئی ہیں۔

اس کیس میں شامل کئی افراد نے الیکشن کمیشن میں براہ راست دائر کی جانے والی درخواستوں پر اعتراض اٹھاتے ہوئے ای سی پی کے دائرہ اختیار کو چیلنج کر رکھا ہے جبکہ ای سی پی کا کہنا ہے کہ وہ نا اہلی کی درخواستوں پر کارروائی سے قبل اپنے دائرہ اختیار کا معاملہ نمٹائے گا۔

یہ خبر 19 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024