‘بچی کو جگایا جائے ورنہ وہ کارڈ جاری نہیں کرسکتے‘
امریکا سے حال ہی میں پاکستان آنےوالی ڈاکٹر نازیہ ضیاء اپنی شیرخوار بیٹی کے لیے قومی شناختی کارڈ برائے سمندر پار پاکستانی (نائکوپ) بنوانے کے لیے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سینٹر پہنچیں، لیکن ڈاکٹر نازیہ کی حیرت کا اس وقت ٹھکانہ نہ رہا جب نادرا سینٹر میں موجود حکام نے ان سے ان کی سات ہفتے کی بیٹی کو جگا کر اس کی کھلی آنکھوں کے ساتھ تصویر لینے کی فرمائش کی۔
نائکوپ سمندر پار پاکستانیوں کو جاری کیے جانے والی رجسٹریشن دستاویز ہے، جو ماضی میں صرف ان پاکستانیوں کو جاری کی جاتی تھی جو چھ ماہ کے لیےکسی اور ملک میں مقیم ہوں یا دوہری قومیت رکھتے ہوں، تاہم اب یہ دستاویز ہر پاکستانی شہری بنوا سکتا ہے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے شیرخوار بچی کی والدہ ڈاکٹر نازیہ نے بتایا کہ وہ 14 اکتوبر کے روز اپنی بچی کا نائکوپ حاصل کرنے کے لیے بلیو ایریا میں واقع نادرا سینٹر پہنچیں، ٹوکن کے حصول اور 45منٹ انتظار کے بعد انہیں ایک کاؤنٹر پر بھیجا گیا۔
خاتون ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ نادرا سینٹر میں موجود نمائندے نے ان سے مطالبہ کیا کہ بچی کو جگایا جائے ورنہ وہ کارڈ جاری نہیں کرسکتے ، خاتون کا کہنا تھا کہ وہ کس طرح چھ ماہ کی بچی کو جگا کر اسے کیمرے میں دیکھنے پر مجبور کرسکتی ہیں، لیکن نادرا نمائندے نے لاپرواہی اور بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: بلاک شناختی کارڈ کا سر درد
خاتون کے مزید بتایا کہ امریکا میں بچی کی پیدائش کے بعدانہوں نے امریکی پاسپورٹ بھی حاصل کیا لیکن امریکی عہدیداران نے ان سےکسی بھی تصویر کے لیے بچی کو جگانے کا مطالبہ نہہیں کیا۔
سابق حکومتی ملازم اور بچی کے نانا ضیاالدین نےبھی نادرا سینٹر کی اس عجیب و غریب فرمائش پر حیرت کا اظہار کیا۔
ضیاالدین کا کہنا تھا کہ نادراسینٹر جس جگہ واقع ہے وہ نامناسب ہے اور وہاں آنے والوں کے لیے پارکنگ کا انتظام بھی موجود نہیں، ’ہم نے نائکوپ کے لیے ساڑھے10ہزار روپے ادا کیے، ہمیں بہتر سروس کی توقع تھی لیکن مایوسی ہوئی، ’چوہدری نثار ان مسائل کو حل کریں۔‘
ضیاالدین واحد شہری نہیں جنہیں اس قسم کی شکایات کا سامنا ہے، بے شمار شہریوں کو نادرا اور پاسپورٹ آفس پر متعدد وجوہات کی بنا پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ہی احمر نقوی نامی شہری کو بھی صرف اس وجہ سے نیا شناختی کارڈ بنوانا پڑا کیونکہ ان کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ میں موجود تصاویر میں بالوں کی لمبائی مختلف تھی۔
مزید پڑھیں: نادرا کے عملے کی بڑھتی ہوئی بہانے بازیاں
ایک اور شہری منیر احمد اس حوالے سے کہتے ہیں کہ دیگر ترقی یافتہ ممالک اور پاکستان کے پبلک سیکٹر اداروں کے طریقہ کار اور عوام کے ساتھ رویے میں واضح فرق موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 15 روز قبل ان کے رشتے دار افضل یونس میلان میں موجود اسٹیشن کے پلیٹ فورم پر اندھیرے کی وجہ سے ریل کی پٹری پر گر پڑے جس سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔
زخمی افضل کو حکومتی خرچے پر اسپتال منتقل کیا گیا اور ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے بعد ایک ہیلتھ ورکر انہیں اسلام آباد لے کر پہنچا ،اب افضل اسلام آباد کے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
عوامی سیکٹر کے اداروں میں افسران کے انداز اور رویوں میں تبدیلی کی اشد ضرورت پر زور دیتے ہوئےشہری کا کہنا تھا کہ ’مسکرا کر اور مہذب انداز میں گفتگو کرنے کے کوئی پیسے نہیں لگتے۔‘
اس معاملے پر جب نادرا سے رابطہ کیا گیا تو ان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بلیو ایریا میں موجود نادرا سینٹر سب سے بہترین ہے اور وہاں کا اسٹاف بھی مہذب اور تمیزدار ہے۔
تاہم نادراترجمان نے درخواست گزار کی آنکھیں کھلی ہونے کے حوالےسے موقف دہراتے ہوئے کہا کہ تصویر کے لیے درخواست گزار کی آنکھیں کھلی ہونا لازمی ہے، کسی بھی شخص کو تصویر کھنچواتے ہوئےٹوپی یا چشمہ پہننے کی اجازت نہیں دی جاتی، اگر بند آنکھوں کے ساتھ تصویر لی جائے تو سافٹ ویئر ایسی تصویر کومسترد کردیتا ہے اور یوں درخواست گزار کی فیس ضائع ہوسکتی ہے، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شیرخوار بچوں کے لیے کوئی علیحدہ انتظام موجود نہیں۔
واضح رہے کہ بلیو ایریا، اسلام آباد میں موجود سینٹر ملک کا سب سے بڑا نادرا سینٹر ہے اور یہاں روزانہ 2 ہزار افراد کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں،اس سینٹر میں 30 کاؤنٹرز موجود ہیں اور 300 افراد کے بیٹھنےکی گنجائش موجود ہے۔
یہ خبر ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (3) بند ہیں